روشنی کا سفر

بہت عرصہ پہلے، شمالی پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک خوبصورت گاؤں “نورپور” آباد تھا۔ یہ گاؤں اپنی فطری خوبصورتی، صاف پانی کے چشموں، اور سبزہ زاروں کے لیے مشہور تھا۔ مگر ایک کمی تھی — گاؤں میں علم کا چراغ بہت مدھم تھا۔ لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتیں تو پوری کر لیتے تھے، مگر تعلیم کی اہمیت سے ناواقف تھے۔

روشنی کا سفر

اسی گاؤں میں زینب نامی ایک لڑکی رہتی تھی۔ زینب بچپن سے ہی کچھ مختلف تھی۔ وہ ہر چیز کو جاننے کی جستجو رکھتی تھی۔ جب دوسرے بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے، زینب درختوں کے نیچے بیٹھ کر پتھروں، پرندوں، اور آسمان کے ستاروں کے بارے میں سوچتی۔ اس کی والدہ اماں حلیمہ، جو خود تھوڑی بہت پڑھی لکھی تھیں، ہمیشہ کہتیں:
“بیٹی، علم روشنی ہے۔ جس کے پاس علم ہے، اس کے راستے میں کبھی اندھیرا نہیں ہوتا۔”

مگر نورپور میں زینب کے خواب دیکھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اسکول نام کا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جہاں پرانا سا بلیک بورڈ تھا اور چند ہی کتابیں موجود تھیں۔ استاد سلامت، جو گاؤں کے واحد معلم تھے، اپنی تنخواہ نہ ملنے کے باوجود دل لگا کر بچوں کو پڑھاتے تھے۔

زینب نے فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف خود تعلیم حاصل کرے گی، بلکہ اپنے گاؤں میں علم کی شمع جلائے گی۔ وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتی، گھر کے کاموں میں اماں کا ہاتھ بٹاتی، اور رات کو دیے کی مدھم روشنی میں پڑھائی کرتی۔ اکثر جب آنکھوں سے نیند ٹپکنے لگتی، وہ اپنے آپ کو کہتی:
“زینب! تمہیں اپنے گاؤں کو روشن کرنا ہے۔ تمہیں ہار نہیں ماننی۔”

وقت گزرتا گیا۔ زینب نے میٹرک کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔ گاؤں کے لوگوں نے پہلی بار کسی لڑکی کو اتنی بڑی کامیابی حاصل کرتے دیکھا۔ کچھ نے سراہا، کچھ نے تنقید کی، مگر زینب کے قدم نہ ڈگمگائے۔

پھر زینب نے شہر جا کر تعلیم حاصل کرنے کی ٹھانی۔ یہ آسان نہیں تھا۔ راستے کٹھن تھے، وسائل محدود تھے، مگر اماں حلیمہ نے اپنی چوڑیاں بیچ کر زینب کا داخلہ شہر کے کالج میں کروا دیا۔ شہر کی زندگی زینب کے لیے ایک نئی دنیا تھی۔ اونچی عمارتیں، روشن سڑکیں، اور جدید تعلیمی نظام — یہ سب اس کے لیے ایک خواب کی مانند تھا۔

کئی برس کی انتھک محنت کے بعد، زینب نے تعلیم مکمل کی اور استاد بن گئی۔ مگر اس نے شہر میں نوکری کرنے کی بجائے، اپنے گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ نورپور کے لوگوں نے جب سنا کہ زینب واپس آ رہی ہے، تو حیران رہ گئے۔

زینب نے گاؤں آ کر سب سے پہلے ایک باقاعدہ اسکول بنایا۔ درختوں کے نیچے بیٹھ کر، ٹوٹے بورڈ پر پڑھنے والے بچے اب روشن کمروں، نئی کتابوں، اور تربیت یافتہ اساتذہ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے لگے۔ زینب نے خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا۔ وہ کہتی تھی:
“جب ایک لڑکی تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو پورا خاندان روشن ہو جاتا ہے۔”

رفتہ رفتہ نورپور بدلنے لگا۔ بچے بڑے خواب دیکھنے لگے، لڑکیاں ڈاکٹر، انجینئر، اور استاد بننے کا عزم کرنے لگیں۔ لوگ جو کبھی صرف زمین جوڑنے میں مشغول تھے، اب اپنی سوچوں کو وسعت دینے لگے تھے۔

سالوں بعد، جب نورپور کو “مثالی گاؤں” قرار دیا گیا، تو سب نے تسلیم کیا کہ یہ تبدیلی زینب کی محنت، لگن، اور یقین کا نتیجہ تھی۔
زینب نے ثابت کر دیا کہ اگر دل میں سچی لگن ہو، تو دنیا کا کوئی اندھیرا علم کی روشنی کے آگے ٹک نہیں سکتا۔

نورپور اب پہلے جیسا گاؤں نہ رہا تھا۔ گلیوں میں علم کی خوشبو پھیل چکی تھی، اور ہر آنکھ میں ایک نیا خواب چمکنے لگا تھا۔ زینب کے اسکول نے اتنی ترقی کی کہ آس پاس کے گاؤں کے بچے بھی وہاں پڑھنے آنے لگے۔ اسکول میں نہ صرف نصابی تعلیم دی جاتی، بلکہ بچوں کو فنونِ لطیفہ، سائنس کی تجربات، اور کھیلوں میں بھی مہارت دلائی جاتی تھی۔

زینب نے جلد ہی اپنے چند قابل شاگردوں کو منتخب کیا اور ان کی خصوصی تربیت شروع کی۔ ان میں سب سے نمایاں ایک لڑکا تھا، فیضان، جو سائنس میں بے حد دلچسپی رکھتا تھا، اور ایک لڑکی، آمنہ، جو بہت خوبصورت انداز میں تقریریں کرتی تھی۔

زینب نے محسوس کیا کہ صرف تعلیم دینا کافی نہیں، بچوں کو خواب دیکھنا اور ان خوابوں کی تکمیل کے لیے جرات کرنا بھی سکھانا ضروری ہے۔ اس نے گاؤں میں پہلا “خواب میلہ” منعقد کروایا، جس میں ہر بچہ اپنے خوابوں کا خاکہ پیش کرتا۔ کسی نے ڈاکٹر بننے کا خواب دکھایا، کسی نے انجینئر کا، اور کسی نے مصور یا مصنف کا۔

اسی میلے میں آمنہ نے ایک دل چھو لینے والی تقریر کی:
“ہمیں دنیا کے ہر اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کا عزم کرنا ہوگا۔ علم ہمارا ہتھیار ہے، اور ہمت ہماری ڈھال۔ آج ہم جو بوئیں گے، کل وہی پھلدار درخت بنیں گے!”

فیضان نے ایک چھوٹا سا سائنسی ماڈل پیش کیا — ایک ایسا واٹر فلٹر جو گاؤں کے ندی کے گندے پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنا سکتا تھا۔ زینب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی محنت رنگ لا رہی ہے۔

چند سالوں میں، نورپور کے کئی بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے شہروں اور بیرونِ ملک گئے۔ وہ جہاں بھی گئے، اپنے گاؤں، اپنی استاد زینب اور اپنی مٹی کی خوشبو کو نہ بھولے۔

زینب اب بڑی ہو چکی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں اب بھی وہی روشنی تھی، جو بچپن میں چمکتی تھی۔ ایک دن وہ اسکول کے صحن میں درخت کے نیچے بیٹھی، بچوں کو پڑھتے دیکھ رہی تھی۔ فیضان اور آمنہ، اب خود استاد بن چکے تھے اور زینب کے مشن کو آگے بڑھا رہے تھے۔

آمنہ نے زینب کے پاس آ کر دھیمی آواز میں کہا:
“استاد جی، یہ روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ ہم نے وعدہ کیا ہے۔”

زینب مسکرائی، اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا:
“روشنی کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔”

اور یوں نورپور کی روشنی ہر آنے والے کل کو روشن کرتی رہی

وقت گزرتا گیا، اور نورپور اب ایک ماڈل ولیج بن چکا تھا۔ گاؤں میں جدید اسکول، لائبریری، سائنس لیبارٹری، اور ایک خوبصورت کمیونٹی سینٹر بن چکے تھے۔ فیضان اور آمنہ کی قیادت میں گاؤں میں نئے منصوبے شروع کیے گئے:
بچوں کے لیے روبوٹکس ورکشاپس، خواتین کے لیے کاروباری تربیت، اور بزرگوں کے لیے مطالعہ و تفریح کے پروگرام۔

زینب اب گاؤں کے بزرگوں میں شامل ہو چکی تھی، لیکن اس کی شخصیت اب بھی ایک چراغ کی مانند سب کے دلوں کو روشن کرتی تھی۔

ایک دن کی بات ہے کہ فیضان کو ایک بین الاقوامی سائنسی نمائش میں شرکت کے لیے بلایا گیا۔ اس نے اپنے واٹر فلٹر پروجیکٹ کو مزید ترقی دی تھی۔ جب اس نے اپنا منصوبہ دنیا کے سامنے پیش کیا تو سب حیران رہ گئے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے لڑکے نے کس طرح سادہ وسائل سے ایک بڑا مسئلہ حل کیا تھا۔
فیضان نے جب اپنی تقریر میں کہا:
“یہ سب میرے گاؤں، میرے استاد سلامت اور استاد زینب کی دی ہوئی روشنی کا نتیجہ ہے”،
تو سامعین کی آنکھیں بھیگ گئیں اور تالیاں گونج اٹھیں۔

دوسری طرف آمنہ نے تعلیم اور خواتین کی ترقی پر عالمی کانفرنس میں تقریر کی۔ اس نے نورپور کے سفر کو ایک کہانی کی شکل میں سنایا۔
اس کی تقریر کا اختتام ان الفاظ پر ہوا:
“ایک استاد، ایک کتاب، ایک قلم اور ایک خواب دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ میں خود اس حقیقت کی زندہ مثال ہوں۔”

نورپور کے کئی بچے اب ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، شاعر اور استاد بن چکے تھے۔ ہر سال وہ واپس گاؤں آتے، نئی نسل کو سکھاتے، اور زینب کے خواب کو مزید پختہ کرتے۔

آخرکار، زینب کے اعزاز میں ایک بڑا اجتماع منعقد کیا گیا، جس میں گاؤں کے بچے، جوان اور بزرگ سب جمع ہوئے۔ اسٹیج پر فیضان اور آمنہ نے زینب کو “نورپور کی روشنی” کا خطاب دیا۔

زینب نے مائیک پر آ کر دھیمے لہجے میں کہا:
“میں نے کچھ خاص نہیں کیا۔ میں نے بس ایک دیا جلایا تھا۔ باقی روشنی تم سب نے پھیلائی ہے۔”

اس دن آسمان پر ستارے بھی کچھ زیادہ چمک رہے تھے، شاید نورپور کے خوابوں کی گواہی دینے کے لیے۔