واقعہ کربلا (مکمل تفصیل)

واقعہ کربلا — انتہائی تفصیلی بیان

پس منظر:

خلافتِ راشدہ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔
یزید بن معاویہ کو 60 ہجری میں خلیفہ بنایا گیا۔ یزید کے کردار اور طرزِ زندگی میں بے دینی، ظلم، فسق و فجور کی علامات نمایاں تھیں۔
جب یزید نے لوگوں سے بزورِ طاقت بیعت لینی شروع کی تو مدینہ، مکہ اور کوفہ کے بہت سے لوگ خصوصاً جلیل القدر صحابہ اور ان کی اولادیں اس پر راضی نہ ہوئیں۔
ان میں سب سے نمایاں حضرت حسین بن علیؓ تھے، جو نبی اکرم ﷺ کے نواسے اور حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے بیٹے تھے۔

واقعہ کربلا

حضرت حسینؓ نے فرمایا:

“یزید جیسا شخص میرے جیسے شخص سے بیعت نہیں لے سکتا۔”


اہل کوفہ کی دعوت:

کوفہ کے لوگوں نے حضرت حسینؓ کو خطوط اور قاصد بھیج کر دعوت دی کہ وہ کوفہ آئیں، ہم آپؓ کی خلافت کے حامی ہیں اور آپؓ کو اپنا امام مانتے ہیں۔
انہوں نے اپنی وفاداری کے وعدے کیے اور آپؓ کو کوفہ آنے پر اصرار کیا۔

حضرت حسینؓ نے پہلے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بھیجا تاکہ وہ حالات کا جائزہ لیں۔
حضرت مسلمؓ کوفہ پہنچے تو ہزاروں لوگوں نے ان کی بیعت کی۔

یہ خبر پا کر حضرت حسینؓ نے سفر کا آغاز کیا۔
لیکن ادھر کوفہ میں حالات پلٹ چکے تھے:
عبید اللہ بن زیاد، یزید کا مقرر کردہ گورنر، نے سختی سے کام لیا، حضرت مسلمؓ کو شہید کر دیا اور کوفہ کے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر حسینؓ کی حمایت سے روک دیا۔


سفر حسینؓ:

حضرت حسینؓ اپنے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔
راستے میں حضرت حسینؓ کو حضرت مسلمؓ کی شہادت کی خبر ملی، لیکن آپؓ نے واپس لوٹنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے سفر جاری رکھا۔

یہ قافلہ زیادہ تر خانوادہ نبوت پر مشتمل تھا:
حضرت زینبؓ بنت علی (حسینؓ کی بہن)، حضرت سکینہؓ (بیٹی)، حضرت علی اکبرؓ (بیٹے)، حضرت عباسؓ (بھائی) اور دیگر قریبی عزیز شامل تھے۔


کربلا کی سرزمین پر:

۲ محرم ۶۱ ہجری کو حضرت حسینؓ کربلا پہنچے۔
یزیدی لشکر نے ان کا راستہ روک دیا اور انہیں میدانِ کربلا میں قیام پر مجبور کیا۔
دریائے فرات کے کنارے موجود ہونے کے باوجود پانی کی فراہمی بند کر دی گئی۔
پیاس کی شدت اہلِ بیت پر سخت آزمائش بن گئی، خصوصاً بچے پیاس سے تڑپنے لگے۔

حضرت حسینؓ نے امن کی متعدد تجاویز دیں:

  • مجھے واپس مکہ جانے دو۔
  • یا مجھے اسلامی سرحدوں کی طرف جانے دو تاکہ میں وہاں دین کی خدمت کر سکوں۔
  • یا مجھے یزید کے پاس خود چلا جانے دو تاکہ معاملہ براہ راست طے ہو۔

مگر عبید اللہ بن زیاد نے سختی سے انکار کر دیا اور یزیدی لشکر کو حکم دیا کہ حسینؓ سے صرف بیعت لی جائے، ورنہ جنگ کی جائے۔


رات عاشور:

۹ محرم کی رات، حضرت حسینؓ نے اپنے خیموں میں ساتھیوں کو جمع کیا اور فرمایا:

“میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم رات کی تاریکی میں چلے جاؤ۔ دشمن صرف مجھے چاہتا ہے۔”

مگر جانثاروں نے جواب دیا:

“ہم کیسے آپ کو اکیلا چھوڑ کر جا سکتے ہیں؟ ہم آپ پر اپنی جان قربان کر دیں گے!”

اس رات اہلِ بیت نے نماز، قرآن خوانی، دعا اور استغفار میں گزاری۔
یہ رات صبر، تسلیم و رضا اور قربانی کی رات تھی۔


دن عاشور (۱۰ محرم):

صبح عاشور یزیدی لشکر نے حملہ کر دیا۔
حضرت حسینؓ کے بہادر ساتھی ایک ایک کر کے میدان میں نکلے اور جانثارانہ جنگ کی۔

مشہور شہادتیں:

  • حضرت علی اکبرؓ: حسینؓ کے نوجوان بیٹے، جو چہرے اور کردار میں نبی کریم ﷺ سے مشابہ تھے، میدان میں اترے اور عظیم الشان قتال کے بعد شہید ہو گئے۔
  • حضرت قاسم بن حسنؓ: حضرت حسنؓ کے جواں سال بیٹے، جنہوں نے اپنی شادی کی خواہش کو قربان کر کے میدان میں جان دے دی۔
  • حضرت عباس علمدارؓ: حسینؓ کے بھائی اور علمبردار، جو پانی لانے گئے لیکن دشمنوں نے ان کے دونوں بازو کاٹ دیے اور انہیں شہید کر دیا۔

حضرت حسینؓ کی آخری جنگ:

آخری وقت میں حضرت حسینؓ تنہا رہ گئے۔
ان کا جسم زخمی تھا، مگر حوصلہ بلند۔
انہوں نے دشمنوں کے سامنے خطبہ دیا:

“لوگو! غور کرو، میں کون ہوں؟ میں نبی کا نواسہ ہوں! کیا تم مجھے قتل کر کے اللہ کے رسول ﷺ سے شفاعت کی امید رکھتے ہو؟”

مگر دشمنوں کے دل پتھر ہو چکے تھے۔

آخرکار شمر بن ذی الجوشن اور اس کے ساتھیوں نے حملہ کیا اور حضرت حسینؓ کو شہید کر دیا۔
ان کا سر مبارک تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دیا گیا۔


بعد از شہادت:

یزیدی لشکر نے خیموں پر حملہ کر کے لوٹ مار کی، اہلِ بیت کی خواتین اور بچوں کو قیدی بنایا۔
حضرت زینبؓ اور حضرت امام زین العابدینؓ (حضرت حسینؓ کے بیمار بیٹے) کی قیادت میں قافلہ اسیری کے دوران کوفہ اور پھر دمشق لے جایا گیا۔

حضرت زینبؓ کا کردار:

حضرت زینبؓ نے کوفہ اور یزید کے دربار میں نہایت جرات مندانہ خطبے دیے، ظلم کو بے نقاب کیا، اور شہدائے کربلا کی قربانی کو زندہ رکھا۔


واقعہ کربلا کا پیغام:

  • حق کی حمایت میں جان دینا افضل ہے۔
  • ظلم اور جبر کے سامنے سر جھکانا درست نہیں۔
  • صبر، قربانی، اور اللہ پر بھروسہ مؤمن کی اصل طاقت ہیں۔
  • حسینؓ کا نعرہ آج بھی زندہ ہے:
    “ہَیْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّة”
    (ہم ذلت قبول نہیں کرتے!)