عمران ایک 38 سالہ بینکر تھا۔ صبح نو سے شام پانچ تک کا معمول، بچوں کی فیس، قسطیں، دفتر کی پریشانی، اور سماجی توقعات — اُس کی زندگی ایک چلتے ہوئے پنکھے کی مانند تھی، جسے بند کرنے کا بٹن شاید کہیں کھو گیا تھا۔
ایک شام، وہ کام کے بعد پارک میں بیٹھا تھا۔ سامنے ایک بڈھا شخص آ کر بینچ پر بیٹھا۔ وہ شخص بے فکری سے چائے پی رہا تھا، جیسے دنیا کی کوئی فکر ہی نہ ہو۔ عمران نے یونہی بات چھیڑ دی:
“بابا جی، لگتا ہے آپ بہت مطمئن ہیں؟”

بابا جی مسکرائے، “میں نے 40 سال نوکری کی، اور پھر ایک دن بس چھوڑ دی۔ ایک وقت آتا ہے جب بندہ سوچتا ہے کہ وہ جیتا ہے یا بس زندہ ہے؟”
یہ جملہ عمران کے دل میں تیر کی طرح لگا۔ وہ رات گھر جا کر پہلی بار سوچ میں پڑ گیا — “کیا میں واقعی جیتا ہوں؟ یا بس دن کاٹ رہا ہوں؟”
اگلے ہفتے اُس نے اپنی پرانی ڈائری نکالی۔ اُس میں اُس کے خواب لکھے تھے: “ایک چھوٹا کیفے کھولوں گا، جہاں کتابیں ہوں، موسیقی ہو، اور لوگ سکون سے بیٹھیں۔”
چھ مہینے بعد، عمران نے ایک چھوٹے سے کیفے کی بنیاد رکھی — “موڑ کافی اینڈ تھنکنگ روم”۔ یہاں ہر شام وہ خوش چہرے دیکھتا، موسیقی سنتا، اور کبھی کبھار، کسی بے چین دل کے ساتھ بیٹھ کر کہانی سناتا — بالکل ویسے ہی جیسے اُس دن بابا جی نے اُسے سنائی تھی۔
سبق:
زندگی کا اصل حسن یہ نہیں کہ ہم کیا کچھ جمع کرتے ہیں، بلکہ یہ کہ ہم کتنی بار خود کو پہچانتے ہیں، اور کتنی ہمت سے اپنے خوابوں کی طرف واپس مڑتے ہیں۔ ہر عمر کا اپنا “موڑ” ہوتا ہے — بس اُسے پہچاننا ہوتا ہے۔