5

اسرائیل نسل کشی وجنگی جرائم کا مجرم

میڈیا اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی سرکاری میڈیا کی جانب سے جنگ بندی تجویز کا مسودہ نشرکردیا گیا ہے۔ نگران لبنانی وزیراعظم نجیب مکاتی نے امید ظاہرکی کہ چند گھنٹے میں جنگ بندی ہوجائے گی۔ جنگ بندی کی خبروں پر وائٹ ہاؤس نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل لبنان جنگ بندی سے متعلق رپورٹس اور مسودے زیرگردش ہیں مگر یہ مذاکرات کی عکاسی نہیں کرتے۔

گزشتہ سال اکتوبر سے اسرائیل کے غزہ پر مسلسل حملوں کے بعد حزب اللہ نے غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت کے طور پر شمالی اسرائیل پر حملوں کا آغازکیا اور راکٹس فائرکرنا شروع کیے جس کے جواب میں اسرائیل نے بھی سرحد کے قریب واقع لبنانی علاقوں پر بمباری کا آغازکیا جس کے بعد دونوں ممالک کے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔

اس سال ماہ اگست تک حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان یہ لڑائی ایک حد تک رہی مگر گزشتہ اگست میں اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد شکرکے قتل کے بعد لڑائی نے ایک نیا موڑ اختیارکیا اور دونوں جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔ ستمبر کے آغاز میں اسرائیل نے کہا کہ وہ ہرصورت اپنے شمالی علاقوں میں لوگوں کو واپس لائے گا اور حزب اللہ کے حملوں کو روکے گا، جس کے بعد گزشتہ چند دنوں سے اسرائیل نے لبنان کے مختلف شہروں پر مسلسل بمباری کا آغازکردیا اور حزب اللہ نے بھی جوابی راکٹ اور میزائل فائرکیے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہونے والے اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل اور سربراہ حسن نصراللہ سمیت بہت سے سینیئرکمانڈرز شہید ہوچکے ہیں۔

لبنانی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ چند روز میں ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد لبنانی شہید اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ تنازعے میں لبنانی فوج کا کوئی کردار ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، تاہم لبنانی فوج کی ایک بڑی تعداد ملک کے جنوبی حصے میں موجود ہے۔ مستقبل میں ہونے والی کسی بھی جنگ بندی کے نتیجے میں جنوب میں لبنانی فوج کی بڑی تعیناتی کا امکان ہے۔ اس جانب حال ہی میں لبنانی وزیر اعظم نے بھی اشارہ دیا، تاہم ان سب کاموں میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے۔ لبنانی فوج کو مزید اہلکاروں کی ضرورت ہے اور اس کے لیے رقم درکار ہے جو اس کی فوج کے پاس نہیں۔ لبنان میں اسرائیلی فوج کے بڑے جانی نقصان کے بعد اسرائیل حزب اللہ سے جنگ بندی پر تیار ہوگیا ہے۔

 دوسری جانب فلسطینی عوام پر اسرائیلی حکومت کی جارحیت عرصہ ایک سال سے جاری ہے۔ اس معاملے پر بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں 78 سال پہلے منظورکی گئی تھیں، لیکن ان پر عمل درآمد سے اجتناب کر کے بڑی طاقتوں کی جانب سے یہ عندیہ دیا گیا کہ فلسطین کے لوگوں کو آزادی کی عظیم نعمت سے محروم رکھنے کا تسلسل ابھی جاری رہے گا۔ بدقسمتی سے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر تواتر سے بمباری اورگولہ باری بلا کسی تعطل اور توقف کے جاری رکھی گئی ہے۔ حالانکہ تاحال کوئی 43 ہزار سے زیادہ فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے ہیں۔

تقریباً ایک لاکھ افراد شدید زخمی اور معذور ہوگئے ہیں۔ غزہ اور دیگر فلسطینی بستیوں میں بیشتر مکان، اسکول، تجارتی مراکز، دفاتر، اسپتال اور مساجد دن رات کی بمباری سے مسمار کرکے ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کر دی گئی ہیں۔

اسرائیلی فوجی روزانہ کئی نوجوان فلسطینی لوگوں کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں، ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ اب وہاں کوئی بھی رہائشی عمارت یا دیگر تعمیرات صحیح ایستادہ حالت میں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ فلسطینی عوام کے رہائشی علاقوں میں ہر سو بمباری اور میزائلوں سے تباہی و بربادی کے اثرات دور سے نظر آتے ہیں۔ ان حالات کے باوجود امریکا کی معاونت سے اسرائیلی وزیراعظم وہاں جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہوئے کیونکہ وہ اپنی شرائط پر ہی جنگ بندی قبول کرنے پر اصرار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

 امریکا مسلسل اسرائیل کی سرپرستی کررہا ہے اور نیتن یاہوکسی جنگ بندی سے قبل اپنے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی شرط تسلیم کرنے پر ہی زور دیتا ہے۔ بصورت دیگر انھیں کوئی جنگ بندی قبول نہیں ہے۔ یہ بہت المناک صورت حال ہے۔ اس قتل عام پر یورپی ممالک امریکا، ایشیاء، افریقہ اور دیگر ملکوں میں کئی بار احتجاجی مظاہرے کر کے اسرائیلی حکومت سے فوری جنگ بندی کی بار بار اپیلیں کی گئیں لیکن تادم تحریر وہاں کے وزیر اعظم نے سب احتجاجی اپیلوں کو یکسر مسترد کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتا اور نہ ہی مانتا ہے۔ امریکا نے چند بار ویٹو کا اختیار استعمال کر کے جنگ بندی کی کئی قراردادوں کو ناکام کیا ہے۔ امریکا کی پیش کی گئی ایک قرارداد کئی ہفتے قبل سلامتی کونسل کے 14 رکن ممالک کی حمایت اور بغیر کسی مخالفت کے منظور کی گئی لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس پر بھی اب تک عمل درآمد کے کوئی سنجیدہ آثار اور حالات نظر نہیں آتے۔

اسرائیل، غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک اسرائیل کو لگام دینے کی بجائے پشت پناہی کررہے ہیں۔ اسرائیل کی عربوں اور فلسطینیوں سے کوئی بھی جنگ اتنی طویل نہیں ہوئی جتنی موجودہ جنگ ہے۔ ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ نہ صرف جاری ہے بلکہ علاقے میں پھیل کر عالمی جنگ کے خطرے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ لبنان، اور ایران اس لڑائی کے الگ الگ محاذ بن چکے ہیں۔ یہ پھیلاؤ حماس کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اسرائیل کا اپنے متعدد دشمنوں کے ساتھ الجھ جانا اور اس کی طاقت کمزور تر ہوجانا، حماس کے لیے سود مند ہے۔ دنیا کے اسٹیج پر مسئلہ فلسطین کا ایک بڑے عالمی تنازع کی صورت میں نمودار ہونا بھی فلسطینیوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

 دنیا فلسطین کا معاملہ بھول چکی تھی، اسرائیل مسلسل اپنی آبادیاں پھیلا رہا تھا۔ عرب ممالک اسرائیل کے قریب ہو رہے تھے مگر حماس نے تمام منصوبے خاک میں ملا دیے۔ ایک سال کے بعد عالمی سطح پر بھی اسرائیل کو بہت سے ممالک کی مخالفت اور تنہائی کا سامنا ہے۔

سات اکتوبر کے حملے کے بعد غیر مسلم دنیا کا تاثر حماس کے خلاف تھا لیکن غزہ پر وحشیانہ بمباری، عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد کے ساتھ بے گناہ عوام کی مسلسل شہادتوں نے یہ تاثر تبدیل کردیا۔ اب اسرائیل نسل کشی کا مجرم ہے اور عالمی عدالت اس کے خلاف فیصلہ بھی دے چکی۔ اس سے قبل فلسطین کے حق میں دنیا بھر میں ایسے بھرپور مظاہرے نہیں ہوئے تھے۔ یہ بھی فلسطینیوں کی کامیابی ہے کہ اب اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے والا ملک نہیں بلکہ قتل ِ عام کا مرتکب سمجھا جا رہا ہے اور فلسطینی جارح نہیں، مظلوم بن چکے ہیں۔

مسلم ممالک کا کردار، نیز او آئی سی کا کردار بدقسمتی سے زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں۔ تاہم زیادہ داد اُن ملکوں کو دینی چاہیے جو مسلم نہیں لیکن انسانیت کے ناتے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں۔ ان میں تازہ ترین اضافہ نکارا گوا کا اسرائیل سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان ہے۔

اسی طرح بولیویا ان ممالک میں شامل ہوا جو عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر درخواست میں فریق ہیں۔ یہ کامیابیاں اہم ہیں لیکن یہ بڑی قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہوئیں۔ 43 ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی، پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن جانا۔ حماس کے اہم لوگوں کی شہادت، بے گھری، وبائیں اور غذا، ادویہ اور طبی امداد کا قحط۔ یہ وہ قربانیاں ہیں جو فلسطینیوں نے دیں اور جو ہنوز جاری ہیں۔

 غزہ کی مختصر سی پٹی میں نہ تو صنعتیں تھیں، نہ فیکٹریاں، نہ برآمدات۔ جو چھوٹے کاروبار تھے وہ جنگ میں تباہ ہوگئے۔ دور سے بیٹھ کر پُرامن ماحول میں بات کرنا اور چیز ہے اور دھماکوں، خون اور نعشوں کے بیچ رہ کر زندگی گزارنا بالکل اور معاملہ ہے، لیکن اسرائیل کا وہ منصوبہ ناکام ہو گیا کہ ہر طرف سے غزہ کے مسلمانوں کو کھدیڑکر مصر کے صحراؤں میں ہانک دیا جائے اور غزہ کی یہ پٹی خالی ہو جائے۔ نہ غزہ کے مقہور غزہ چھوڑنے کو تیار ہیں نہ مصر نے ان کے لیے راستہ کھولا۔ اس لیے ایک سالہ جنگ کے بعد بھی غزہ کا مستقبل اسرائیل کے لیے مسلسل چیلنج ہے۔

اس جنگ کا ایک اور نتیجہ اسرائیل کے خلاف یہ نکلا کہ فلسطین کے 14 گروپ یکجا ہو گئے۔ جولائی میں اعلانِ بیجنگ کے ذریعے، جس میں فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں شریک تھے، ایک معاہدہ ہوا جس کے نکات فلسطینیوں کے مل کر کام کرنے اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر مبنی ہیں۔ اب تک اسرائیل فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے اختلافات کا فائدہ اٹھاتا رہا لیکن فلسطینیوں کا یکجا ہو جانا مستقبل میں اسرائیل کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنے گا۔ فتح یا شکست صرف یہی نہیں کہ کس کا کتنا جانی نقصان ہوا یا کتنی عمارتیں تباہ ہوئیں۔

ایک نظر بینک آف اسرائیل کے اس بیان پر ڈال لیتے ہیں کہ اس سال کے آخر تک اسرائیل کی اس جنگ پر لاگت 67 بلین ڈالرز ہو جائے گی۔ یہ لاگت اس امریکی مسلسل امداد کے باوجود ہے جو امریکی تاریخ کا اسرائیل کے لیے سب سے بڑا پیکیج ہے۔ 67 ارب ڈالر لاگت کے بعد اسرائیل نے کیا کھویا اورکیا پایا؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ پابندیوں اور مصلحتوں سے باہر مستقبل کا مورخ لکھے گا کہ اسرائیل کو بدترین زخم اسی جنگ میں لگے تھے۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں