6

آئینی ترمیم

حکومت اور اتحادی جماعتوں نے پارلیمنٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرا لی ہے ، جس کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا۔

آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا ،سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں آئینی بنچ تشکیل دیئے جائیں گے ، چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔

آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے اور آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہو گا۔

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی 26 ویں آئینی ترمیم منظور

پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینئرترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی ، کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہو گا۔ کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکارکی صورت میں اگلے سینئرترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔

ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی تاہم چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہو جائیں گے ، چیف جسٹس سے سومو نوٹس لینے کا اختیار ختم جبکہ ججز کی ترقی کارکردگی کی بنیاد پر ہو گی۔

آئینی ترمیم عدالتی نظام پر حملہ ، نواز شریف نے شعر پڑھ کر آزاد عدلیہ کی توہین کی ، بیرسٹر گوہر

ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کے تحت صدر مملکت ، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونلز میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرنے کے مجاز ہوں گے،عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہو گا۔آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کر سکتا ہے۔

آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ، بی این پی مینگل کے 2 سینیٹرز سے استعفے طلب

ججز کی تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں 4 اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، کمیشن میں دو اراکین قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے لیے جائیں گے ، دو حکومت اور دو اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ بنیں گے۔

حکومت کی طرف سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم جبکہ اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر دیں گے، حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی جس کے تحت جوڈیشل کمیشن جو پہلے صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائیکورٹ اور شریعت کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں