2025کی حج پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ آیندہ برس حج پونے گیارہ لاکھ روپے کا ہوگا اور اسی سال 25 نومبر سے حج درخواستیں موصول کرنا شروع کر دی جائیں گی۔
حج وہ سعادت عظیم ہے جوکہ کوئی بھی مسلمان چاہے وہ دنیا کے کسی حصے میں مقیم ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج ادا کرے۔ چند عشرے قبل جب حج انتہائی سستا ہوا کرتا تھا، غالباً 1968 میں حج 4 یا 5 ہزار میں ہو جایا کرتا تھا۔ حج ادا کرنے کی خاطر لوگ ساری زندگی رقم جمع کرتے تھے، لیکن اب وہ بات نہ رہی کیونکہ ہر سال حج اخراجات میں دو سے تین لاکھ روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے میں کوئی کیا کرے؟ حج کو مزید سستا کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ بذریعہ سڑک اور بذریعہ بحری جہاز سفر کے انتظامات کیے جائیں۔ اگر کوئی بھی حکومت حج کو سستا ترین کرنے کے لیے کوئی بھی مناسب اور بہترین انتظام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہاں کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک فلاحی مذہبی اور ثواب کمانے کا اقدام ہوگا لیکن ان باتوں کا احساس کرنے کے لیے بھی یہ معاملہ ترجیحی فہرست میں ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ بہت سے امور ایسے ہیں جن کے ذریعے حج کو مزید سستا بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً سستی رہائش کا انتظام کرنا اور دیگر امور شامل ہیں۔ حج مسلمانوں کے لیے دنیا میں سب سے بڑا عالمی اجتماع ہوتا ہے ، جوکہ اس مرتبہ 25 یوم سے لے کر 38 یوم تک محیط ہوگا۔ دنیا میں مسلمان آبادی والا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا کے مسلمان بڑی تعداد میں حج کے لیے آتے ہیں لیکن انتہائی منظم طریقے سے مناسک حج ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ 50 سے 100 افراد کی ٹولیاں منظم انداز میں طواف کی ادائیگی، اس کے علاوہ دیگر مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ اس سال تقریباً 90 ہزار پاکستانی سرکاری کوٹے پر حج ادا کریں گے۔ حج کے عالمی اجتماع کے علاوہ مسلمانوں کے ملکی سطح پر بھی دیگر اجتماعات ہوتے ہیں۔
ان میں بنگلہ دیش کا تبلیغی اجتماع جس کے بارے میں کہا جاتا ہے لاکھوں مسلمان اس سہ روزہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرتے ہیں لیکن اس سال یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب اسے بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور فروری 2025 کا ’’ٹنگی‘‘ میں ہونے والا اجتماع سے اس کا آغاز ہو جائے گا۔ پاکستان میں بھی جمعرات 7 نومبر سے رائے ونڈ کے اجتماع کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ جس میں دعوت و تبلیغ کے حوالے سے بزرگ خطاب فرمائیں گے۔ 1977 سے سابق صدر ضیا الحق نے نومبر میں ہونے والے تبلیغی اجتماع کے موقع پر اسپیشل ٹرینیں چلانے کا آغاز کیا تھا جس سے پاکستان ریلوے کو کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی سے بذریعہ پی آئی اے بھی ہزاروں افراد لاہور جاتے رہے ہیں۔ پی آئی اے کی لاجواب سروس کو اب زوال آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا یہاں تذکرہ مناسب نہ ہوگا لیکن حکومت اگر چاہے تو اندرونی مسائل کو حل کرکے ایک بار پھر اس قومی فضائی سروس کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتی ہے، لیکن گزشتہ کئی عشروں میں یہاں حکمرانی کرنے والی ہر حکومت نے اس بات سے پہلو تہی کی۔ اگر یہ ٹھان لی جائے کہ ہر قسم کا تکنیکی اور سروس کا کام صرف اور صرف پی آئی اے کے ملازمین ہی کریں گے۔ چھوٹے چھوٹے پرزوں اور دیگر کاموں کے لیے دیار غیر بھجوایا جاتا ہے جس کے باعث کثیر اخراجات بھی آیا کرتے تھے۔ اگر ایک دفعہ اس کی پوری طرح سے اصلاح کرلی جائے تو ہو سکتا ہے کہ اس قومی ایئر لائن کو پاکستانیوں کی خدمت کا بھرپور موقع پھر مل جائے۔
اب تھوڑا اللہ والوں کی بات کر لیتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے اجتماعات ہر سال رائے ونڈ میں اب دو مرحلوں میں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر کے کروڑوں افراد اس جماعت کے کارکن ہیں جوکہ دین کی خدمت انتہائی اخلاص کے ساتھ کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صدر ایوب خان نے تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں سے آگاہی کے لیے ایک افسر کی ڈیوٹی لگائی جنھوں نے یہ رپورٹ دی کہ یہ تو صرف مرنے کے بعد کی زندگی کی بات کرتے ہیں کہ دنیا میں ایسے اعمال کرکے جائیں کہ مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیاب و کامران ہو جائیں۔
دنیا میں اللہ کے احکام کو مانیں اور نبی کریمؐ کے مبارک طریقوں کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں۔ لہٰذا حکومت کو ان سے کوئی بھی خطرہ لاحق ہی نہیں ہو سکتا۔ رائے ونڈ کے موجودہ مرکز کے لیے زمین ایک میواتی تبلیغی بزرگ بابوجی عبداللہ نے مرکز کے لیے وقف کردی تھی۔ جہاں ایک مسجد قائم کرکے اس کام کا آغاز قیام پاکستان کے بعد کر دیا گیا تھا۔ اس عالمی مذہبی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاسؒ نے 1926 میں اس کام کا آغاز کیا تھا۔ بھائی عبدالوہاب نے اس کام کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کچھ دنوں کے لیے دہلی سے آ کر ’’بورے والا‘‘ میں مقیم رہے اور پھر جلد ہی رائے ونڈ میں مقیم ہو کر پاکستان کے بیشتر علاقوں میں پیدل، ٹانگے کے ذریعے، بس، ریل کے ذریعے دین کی دعوت و تبلیغ کا کام مسلسل کیا۔
بستی نظام الدین کے گرد و نواح میں بڑی تعداد میں میواتی رہتے ہیں۔ جن کی اکثریت مولانا الیاسؒ کے مرید ہونے کے باعث اس کام کے سرگرم کا رکن بن چکے تھے۔ اس کام کو روحانی اور دیگر طریقوں سے تقویت پہنچانے والے بہت سے بزرگ ہیں۔ جن میں ایک اہم نام تلہ گنگ کے قصبے محرم خان کے رہنے والے حضرت عبدالقادر رائے پوری تھے جوکہ اپنے شیخ حضرت شاہ عبدالرحیمؒ کے بعد ان کے جانشیں ہو کر رائے پور انڈیا میں مقیم ہو گئے تھے۔ البتہ اب ان کی قبر سرگودھا میں ہے۔
اس کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریاؒ کی کتابوں خصوصاً فضائل اعمال تبلیغی حلقوں میں نہایت مقبول عام ہے۔ جس کی ان مسجدوں میں تعلیم دی جاتی ہے جہاں تبلیغی کام ہوتا اس کے علاوہ فضائل صدقات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ تبلیغی جماعت والوں نے دنیا بھر کے ممالک میں جا کر دین کا کام کیا جس کے اثرات کے باعث ہزاروں گرجا گھر مساجد میں تبدیل ہو گئے جس بھی غیر مسلم ملک میں مسلمان موجود ہیں وہاں پر بچوں کے لیے مدارس قائم ہوگئے جہاں دیار غیر میں بھی ہزاروں بچے حافظ قرآن بن رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ تبلیغی جماعت جس انداز میں دعوت و تبلیغ کا کام کر رہی ہے۔ وہ دور صحابہ کرامؓ سے ملتا جلتا انداز ہے اور اس کی برکت سے مسلمانوں میں دین کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسے ایک خاموش انقلاب سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
ان لوگوں کا کوئی سیاسی ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ صرف اپنی اصلاح اور ساتھ ہی مسلمانوں کو یاددہانی کہ وہ اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو جوکہ کلمہ پڑھنے کی صورت میں کیا گیا کہ اے اللہ تیرے احکام کو مانیں گے اور نبی کریمؐ کے مبارک طریقوں پر عمل کریں گے۔ اپنی جان، اپنا مال اپنا وقت لگا کر محنت و مشقت کرتے ہوئے جو بھی دین کا کام اللہ کی طرف بلانے والا کام کر رہا ہوگا وہ اللہ والا ہی ہوگا، اور کہا جاتا ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی کلمہ پڑھنے والا موجود ہے قیامت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب فرمائے۔