4

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے سو سال : 1924 ء سے 2024 ء

 اگر وقت اور اقتدار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سلطنتِ عثمانیہ یا خلافت ِ عثمانیہ کے آخری حکمران یا خلیفہ سلطان وحید الدین ہی کو تسلیم کیا جا ئے گا ۔ وہ 14 جنوری 1861 ء میں پیدا ہوئے اور 16 مئی 1926 ء کو جلا وطنی میں سان ریمواٹلی میں وفات پائی ۔ اس کے بعد اُنہیں دمشق کے تکیہ سلیمانیہ میں سپرد خاک کیا گیا ۔ یہ خلیفہ یا سلطان وحید الدین اپنے بھائی سلطان محمد پنجم کے بعد 36 ویں سلطان بنے ۔

وہ 1918 ء سے 1922 ء تک سلطان یا خلیفہ رہے اور 19 نومبر 1922 ء کو اُنہوں نے اپنے قریبی عزیز عبدالمجید آفندی ( عبدالمجید ثانی) کو خلیفہ بنا دیا جو 3 مارچ 1924 ء تک یعنی خلافت کے خاتمے تک جلا وطنی میں خلیفہ رہے ، سلطان وحید الدین ترکیہ یعنی سلطنت ِ عثمانیہ کے وہ بدقسمت سلطان تھے جن کے دورِ حکومت میں جنگ عظیم اوّل کا خاتمہ 1918ء میں ہوا تھا ۔ جنگِ عظیم 1914 ء میں شروع ہوئی تھی اور چار سال جاری رہی، اس میں بنیادی طور پر ترکیہ کی سلطنت عثمانیہ اور جرمنی ایک جانب تھے اور دوسری طرف اُس وقت کی سپر پاور برطانیہ اور فرانس سمیت یورپ کی دیگر ممالک کے علاوہ امریکہ شامل تھے ۔ زار روس کی سلطنت بھی اکتوبر 1917 ء اس اتحاد کا حصہ رہی۔ 17 اکتوبر 1917 ء میں جب لینن ، اسٹالن اشترکی انقلاب لے آئے تو اس انقلابی روسی کیمونسٹ حکومت نے روس کو اس اتحاد سے نکال لیا ۔

ر وس کی جگہ بیسویں صدی کی نئی اور حقیقی سپر پاور امریکہ ، تازہ دم حیثیت میں اور جدید اسلحہ اور ہتھیاروں سے لیس فوج کے ساتھ اتحادیوں میں شامل ہو گیا ۔ امریکہ کے شامل ہو جانے سے ترکی اور جرمنی کے مقابلے میں پوری دنیا تھی ، ہاں یہ ضرور تھا کہ چار سالہ پہلی جنگِ عظیم کے اختتام سے ایک سال پہلے روس پہلی جنگِ عظیم میں غیر جانبدار ہو گیا تھا۔ 1918 ء میں جب ترکیہ جنگ عظیم دوئم میں شکست کے مراحل سے دو چار تھا تو سلطنت ِ عثمانیہ کا بیشتر حصہ اتحادیوں کے قبضے میں آچکا تھا ۔ اپریل1920 ء میں سان ریموکانفرنس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ ’’ترکیہ ، شام پر فرانس اور فلسطین مابین الہند پر برطانیہ کے اقتدار کو تسلیم کر چکا تھا۔ پھر 10 اگست 1920 ء ہی کو سلطان کے نمائندوں نے معاہدہ سیور پر دستخط کر دئیے جس کے نتیجے میں اناطولیہ اور ازمیر بھی ترکیہ کے ہاتھ سے نکل گئے اور حالیہ ترکیہ بھی مزید سمٹ گیا ۔

اسی معاہدے کے تحت سلطنت ِ عثمانیہ کو حجاز ( آج کا سعودی عرب) کو ایک خود مختار اور آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنا پڑا ۔ اس صورتحال پر ترک قوم شدید غم و غصے کا شکار تھی اِ س موقع پر ترکی کے جنرل مصطفی کمال پاشا نے فوری نوعیت کے اقدامات کئے۔ وہ اپریل 1920 ء ہی کو اپنی قیادت میں ’’ترکی ملت مجلس عالیٰ،، کا اعلان کر چکے تھے پھر عارضی آئین نافذ کیا اور سلطان کے اقتدار کو نہایت محدود کر دیا پھر اُسے تخت سے اتار دیا ، مصطفٰی کمال پاشا نے ترک قوم پرستوں کے ساتھ مل کر جنگ ِ آزادی میں کامیابی حاصل کی اور ترکی یا ترکیہ کو بطور ایک ملک،آزاد کر وا لیا، یکم نومبر 1922 ء کو اُنہوں نے باضابطہ سلطنت ِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا، سلطان کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔ 17 نومبر 1922 ء کو وہ بذریعہ بحری جہا ز مالٹا روانہ ہوئے بعد میں وہ اٹلی چلے گئے۔ 19 نومبر 1922 ء کو اُنہوں نے عبدالمجید ثانی کو خلیفہ مقررکیا ۔

 یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 1914 ء سے 1918 ء تک جاری رہنے والی جنگ دنیا میں پہلی بار عالمی جنگ کہلائی تھی جس کو بعض مورخین جنگ عظیم بھی کہتے ہیں ، یہ دونوں الفاظ درست ہیں لیکن پہلا لفظ یعنی عالمی جنگ زیادہ جامعیت رکھتا ہے کیونکہ اُس وقت دنیا ذرائع ابلاغ اور ذرائع آمد و رفت کی ترقی سے ایک ایسی دنیا بن چکی تھی جس میں اس عظیم جنگ کی وجہ سے اس کے متنوع بنیادوںپر بہت گہرے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے اور پوری دنیا تبدیل ہو نے لگی ۔

اس روائتی انداز کی دنیا میں پہلی تبدیلی اُس وقت سامنے آئی تھی جب 1492ء میں اسپین میں ملکہ ازابیلا نے دوسری ریاست کے بادشاہ فرنڈس کے ساتھ شادی کے بعد اسپین جس پر اب صرف غرناطہ کی ریاست پر مسلمانوں کی حکومت رہ گئی تھی، دونوں نے حملہ کر دیا اور غرناطہ کے غدار وزیر اور امرا کی مدد سے اس کو شکست دیدی اور اسپین سے تمام مسلمانوںکو یا تو قتل کر دیا یا ملک بدر کر دیا۔ اسی دور میں ہندوستان جانے والے تمام روائتی بحری راستوں پر عربوںکا قبضہ ہو چکا تھا اس لیے دنیا کے ملاح تجارت خصوصاً گرم مصالحے کی تجارت کے لیے ہندوستان پہنچنے کے لیے نیا بحری راستہ دریافت کر نے کے مشن پر تھے۔

 اسی سال یعنی 1942 ء کو ملکہ ازیبلا نے کرسٹوفر کولمبس کی مالی مدد کی جس نے ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریافت کرنے کا سفر کیا مگر رستہ بھٹک کر امریکہ کے ساحل پر پہنچا اور امریکہ دریافت کر لیا ، یوں 1492ء وہ سال ہے جب دنیا میں نو آبادیات کا آغاز ہوا اس سے قبل دنیا میں جنگوں اور فتوحات کی تاریخ اور روایت یہ تھی کہ دنیا بھر میں رجحان یہ تھا کہ طاقتور بادشاہ دوسرے ملکوں پرحملہ آور ہوتے تو دو صورتیں ہوتیں

نمبر1 ۔ حملہ آور بادشاہ کو شکست ہوتی وہ قتل ہوتا یا پسپا ہو کر بھاگ جاتا

 نمبر2 ۔ اگر حملہ آور بادشاہ فتح یاب ہو جاتا تو وہ اس بات کا اندازہ اپنی قوت اور مفتوح ملک کی آبادی رقبے اور اپنی فوجی قوت اور اپنے ملک کے وسائل اور آبادی کے موازنے کے بعد دو طرح کے فیصلے کرتا، ایک یہ کہ وہ اگر یہ سمجھتا کہ مفتوحہ ملک پر مستقل قبضہ مشکل اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے تو وہ مفتوح ملک کی دولت کو لوٹتا اور اس کے بعد شکست خوردہ بادشاہ کو باج گذار بناتا یعنی وہ سالانہ ایک رقم فاتح بادشاہ کو بھیجتا رہے گا، دوسری صورت یہ ہوتی کہ بادشاہ یہ فیصلہ کرتا کہ اب وہ اپنی فوج کے ساتھ مفتوحہ ملک میں پرانی بادشاہت کو ختم کر کے اپنی بادشاہت قائم کر ے گا۔

 اس کی بہت سی مثالوں میں سے ایک زیادہ بہتر مثال 1526 ء میں برصغیر میں پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابرکی ہے ، اس طرح علاقائی سطح پر اگر باج گذار ہوتا تو بھی زیادہ عرصے تک یہ صورت نہیں رہتی تھی اور اگر بابر کی طرح ملک فتح کرنے کے بعد وہاں بادشاہت قائم کرتا تو اُس ملک کی دولت وہیں رہتی تو بادشاہ چاہے محمد شاہ رنگیلے ہی کی طرح عیاش بھی ہوتا تو بھی قومی دولت ملک ہی میں رہتی، اگرچہ یہ قومی دولت عوام کی فلاح و بہود کی بجائے طوائفوں، جوا، شراب خانوں کی نذر ہوتی ۔

اسی طرح جب مفتوح ملک میں نئی فاتح افواج اور نئی قوم اپنی ثقافت لے آتی اور وقت کے ساتھ آزاد سماجی ارتقا میں ایک ثقافت دوسری ثقافت سے ہم آہنگ ہو جاتی تو ایک زمانے بعد یہ تہذیبی امتزاج ملک اور اس کی زمین میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیتی، اس کی مثال بھی برصغیر میں انڈو مغل تہذیب کی ہے ۔ یوں بنیادی طور پر ملک کی دولت تجارت ، صنعت کے اعتبار سے ملک ہی کی مارکیٹ میں گردش کرتی تھی لیکن جب یورپی اقوام نے 1492ء کے بعد نوآبادیاتی نظام کو فروغ دیا تو یہ ہزاروں برس کی پرانی اور تاریخی روایت سے بالکل ہی مختلف تھی تو وہ پرانی روایت اور انداز بدل گیا۔

 اس دور میں یعنی 1492 ء میں شروع ہونے والے نو آبادیاتی نظام میں حکمران اب تاجر تھے انہوں یہ ایک بنیادی تبدیلی کی تھی، یورپ میں یہی نو آبادیاتی نظام احیائے علوم کی تحریک کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی اور سنٹرل بنکنگ اور اسٹاک ایکسچینج سے ہم آہنگ ہو گئیں ، یوں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی انسانی قدروں سے کافی حد تک ہٹ کر عیارانہ طور پر معیشت تجارت اور صنعت سے جا ملی، اُس زمانے سے ذرا پہلے خلافت عثمانیہ اور سنٹرل ایشیا میں دو عظیم بادشاہ تھے جن کا زمانہ 1492 ء سے 40 سال پہلے کا ہے ، دنیا کے اِن دو بادشاہوں میں سے ایک نہایت طاقتور حکمران ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا چوتھا خلیفہ یا سلطان بایزید یلدرم اور دوسرا وسطیٰ ایشیا کا عظیم حکمران امیر تیمور جنہیں تیمور لنگ (لنگڑا) بھی کہا جا تا ہے ۔

بایزید یلدرم 1354 ء میں پیدا ہوا، اس کا دور حکومت 1389 ء سے 1402 ء رہا ، امیر تیمور 9 اپریل 1336 ء کو پیدا ہوا اور 1405 ء میں وفات پائی۔ امیر تیمور نے سنٹرل ایشیا کے تمام علاقوں پر مشتمل ایک عظیم سلطنت قائم کی اور ایران، افغا نستان، ہندوستان اور ترکی تک کے علاقوں پر قبضہ کیا، تمام مورخین یہ جانتے ہیں کہ بایزید یلدرم اور امیر تیمور دونوں اُس وقت دنیا کے عظیم مسلمان حکمران تھے ، اگر یہ دونوں آپس میں اتحاد کر لیتے تو وہ پوری دنیا کو فتح کر سکتے تھے لیکن یہ دونوں طاقتور، بہادر اور پرُعزم بادشاہ آپس میں ٹکرا گئے۔

 امیر تیمور نے ترکی پر حملہ کیا اور یہ جنگ 1400 ء سے1402 ء تک جاری رہی اور لاکھوں افراد اس جنگ میں ہلاک ہو ئے، آخر بایزید یلدرم کو شکست ہوئی اور اُسے گرفتار کر کے امیر تیمور کے سامنے لایا گیا، کہا جاتا ہے کہ تیمور اُسے دیکھ کر قہقہے مار کر ہنسا تو بایزید نے غصے میں چیخ کر کہا کہ تم فاتح ہو لیکن تم با ظرف انسان نہیں ہو کہ مجھ پر ہنس رہے ہو، اس پر تیمور نے جواب دیا کہ میں تم پر نہیں بلکہ اللہ کے فیصلے پر ہنس رہا ہوں کہ اُس نے دنیا کی قسمت ایک کانے اور ایک لنگڑے کے حوالے کر دی ہے، تیمور لنگڑا تھا اور بایزید یلدرم ایک آنکھ سے کانا تھا۔

 اس شکست کے صدمے سے بایزید چند مہینوں میں ہی وفات پا گیا ۔ جنگ کے دوران ترک شہزادے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے جنہوںنے فوراً بعد میں سلطنت عثمانیہ کو بہت مضبوط کیا، جب کہ مغلوں کے ہاں ولی عہد کا تصور نہیں تھا اور چنگیز خان کی طرح ریاست کو بادشاہ کی وفات کے بعد تقسیم کر دیا جاتا تھا ، یوں امیر تیمور کی وفات کے بعد اُس کی سلطنت پہلے اُس کے تین بیٹوں میں تقسیم ہوئی پھر اِن تین بیٹوں کی ریاستیں آگے اُن کے بیٹوں یعنی تیمور کے پوتوں میں تقسیم در تقسیم ہو تی رہیں اور تیسری نسل میں ازبکستان میں ایک چھوٹی سی ریاست فرغانہ ظہیر الدین بابر کے باپ عمر سلطان مرزا کے حصے میں آئی۔

 اُن کی وفات پر بابر ریاست فرغانہ کا حکمران بنا تھا مگر اُس کے ماموں اور چچا نے حملہ کر دیا اور بابر وہاں سے فرار ہو گیا پھر اُس نے افغانستان کو فتح کیا اور پھر یہاں سے لشکر لے کر1526 ء میں ہندوستان فتح کیا اور ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی اور اپنے بیٹے ہمایوں کو ولی عہد مقرر کیا مگر ظہیر الدین بابر کی وفات کے بعد اقتدار کے لئے اس کے بیٹوں میں جنگ ہوئی ،پھر مغلیہ سلطنت میں دوسری جنگ تخت نشینی شاہجہان کے دور میں اُس کے بیٹوں کے درمیان ہوئی جس میں اورنگ زیب عالمگیر نے فتح حاصل کی، مگر 1707 ء میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد اُس کی سلطنت اورنگ زیب کے تین بیٹوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جب کہ برصغیر کے مقابلے میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ میں ولی عہد کا طریقہ کار یعنی خلافت یا بادشاہت کی وراثت چلتی رہی ، یوں برصغیر میں زوال تو اور نگزیب کی وفات سے شروع ہو ا اور مکمل غلامی 1857 ء میں اعلانیہ طور پر سامنے آگئی ۔

اسپین میں بھی اگرچہ زوال کا آغاز 1300 ء سے شروع ہو گیا تھا مگر یہاں مسلما نوں کا مکمل خاتمہ 1492 ء میں ہوا، اسی طرح ایران، افغانستان میں بھی انحطاط نادر شاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد شروع ہوا اور سنٹرل ایشیا میں بھی زوال 1700 ء سے شروع ہو گیا تھا ، جب روس میں پیٹر دی گریٹ کی حکومت قائم ہو گئی تھی اور پھر زار پال کے زمانے میں وسط ایشیاکی ریاستوں کی خودمختاری تقریباً ختم ہونے لگی تھی اور اس کا آغاز 1839 ء کی پہلی اینگلو افغان جنگ سے ہوا تھا کیونکہ روس اپنی سرحدوں کو زیادہ محفوظ بنانا چاہتا تھا ۔

 جب برطانیہ نے ہندوستان سے پہلی بار 1839 ء میں افغانستان پر حملہ کیا تو اگرچہ 1842 ء میں افغانیوں نے انگریزوں کی بارہ ہزار فوج کو مکمل طور پر قتل کر کے آزادی حاصل کر لی تھی مگر روس نے سنٹرل ایشیا میں آگے بڑھنا شروع کر دیا تھا ، پھر 1878 ء میں جب دوسری اینگلو افغان جنگ جس میں ہندوستان کی فوج نے افغانستان پر قبضہ کر کے اپنی مرضی کی بادشاہت قائم کر دی تھی اور انگریزوں نے ایک بڑی رقم بطور سبسڈی دی اور اس کے عوض افغانستان کے دفاع اور امور خارجہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ، یوں روس نے اب افغانستان سرحد کے قریب واقع سنٹرل ایشیا کی تمام ریاستوں پر قبضہ کر لیا۔

 اب جہاں تک ترکیہ کی سلطنت یا خلافت کا تعلق تھا تو یہ درست ہے کہ ترکی میں چوتھے حکمران بایزید یلدرم جو امیر تیمور سے شکست کھا کر قید میں ایک سال کے اندر ہی انتقال کر گئے تھے مگر اس کے شہزادے جو فرار ہو گئے تھے اُنہوں نے بعد میں ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ کو مضبوط کیا جب کہ اس کے مقابلے میں امیر تیمور کی وفات کے فوراً بعد سنٹرل ایشیا میں بھی اِن کی سلطنت پہلے تین حصوں میں اور بعد میں نسل در نسل چھوٹی چھوٹی ریاستوں تقسیم ہوتی چلی گئی، جب کہ1402 ء میں بایزید یلدرم کی وفات کے بعد ترکی سلطنت عثمانیہ مستحکم اور طاقتور ہو تی چلی گئی اور 16 ویں صدی عیسوی کے آغاز سے تو ترکی کی سلطنت عثمانیہ دنیا کی ایک عظیم سلطنت بن گی ، خصوصاً جب سلطان سلیما ن عالیشان نے بڑی فتوحات کیں، اُس وقت سلطنتِ عثمانیہ کی حدود سرزمین حجاز، مصر، عراق، یمن، شام ، یونان اور مشرقی یورپ میں ہنگری تک پھیلی ہوئی تھی ۔

 جب ترکی سلطنت عثمانیہ پر سلمان عالیشان کی حکومت تھی تو ہندوستان میں شیر شاہ سوری کی حکومت تھی، بدقسمتی سے شیر شاہ سوری صرف پانچ سال برسر اقتدار رہے اور وفات پا گئے، 16 ویں اور 17 ویں صدی عیسوی میں ترکی کی خلافت تین براعظموں تک پھیل گئی تھی، 1683 ء میں سلطنت عثمانیہ کا رقبہ 5200000 مربع کلومیٹر تھا اور یورپ میں آسڑیا ، سلواکیہ اور کریمیا سلطنت کا حصہ تھے ، مالدودا، ٹرئسلواینا اور وللاچیا باج گذار ریاستیں تھیں ، پھر 1828 ء سے 1908 ء تک واقعی ترکیہ مرد بیمار کہلانے لگا اور سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہو گیا اور ترکیہ کئی محاذوں پر شکست کھا نے لگا اس کی سر حدیں سکڑتی چلیں گئیں ۔ 1892 ء تک سربیا لسئگرو ، بو سینیا، ولاجیا، مالدوا اور پھر یونان نے آزادی حاصل کر لی اسی دوران روس، ترکیہ جنگ میں روس نے سربیا ، رومانیہ، مو نٹی ، ہنگری اور پھر بلغاریہ کو آزاد کروا لیا۔

 بیسویں صدی عیسوی کا آغاز دنیا میں مسلمانوں کا زوال تھا ، یہی وہ عہد تھا جب بر صغیر میں مسلمانوں کی سیاسی سماجی بیداری کے لیے سرسید احمد خان ، الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور ان کے بعد مولانا محمد علی جو ہر ، قائد اعظم اور پھر حکیم الا مت علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کی آزادی اور بیداری کے لیے اہم جدوجہد شروع کی۔ اگر چہ اُس وقت دنیا میں ذرائع ابلاغ محدود تھے مگر علامہ اقبال کی نظر اُس وقت عالم اسلام اور خصوصاً ترکیہ کی خلافت پر تھی ، طرابلس ( لیبیا) جو ترکیہ سلطنت کا حصہ تھا روم ، اٹلی نے 1911-12ء میں یہاں حملہ کیا اور جنگ شروع ہوگئی ۔ 1912 ء میں طرابلس کی جنگ میں (مجاہدہ فاطمہ بنت عبداللہ ) جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی تو علامہ اقبال نے فاطمہ بنت عبداللہ کے عنوان سے نظم لکھی ۔

فاطمہ ! تو آبروے امت ِ مرحوم ہے

ذرہ ذرہ تیری مشت ِخاک کا معصوم ہے

یہ سعادت حورِ صحرائی!تری قسمت میں تھی

غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی

یہ جہاداللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر

ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر

یہ کلی بھی اس گلستاں ِخزاںمنظر میں تھی

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی

اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں

بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں

فاطمہ !گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے

نغمہء عشرت بھی اپنے نالہ ء ماتم میں ہے

رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے

ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے

ہے کوئی ہنگامہ تیری تربتِ خاموش میں

پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں

بے خبر ہوں گرچہ اُن کی وسعتِ مقصد سے میں

آفرینش دیکھتا ہوں اُن کی اس مرقد سے میں

تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور

دیدہء انساں سے نا محرم ہے جن کی موجِ نور

جو ابھی اُبھرے ہیں ظلمتِ خانہِ ایام سے

جن کی ضو ناآشنا ہے قیدِ صبح وشام سے

جن کی تابانی میں انداز کہن بھی نُو بھی ہے

اور تیرے کوکبِ تقدیر کا پَر تو بھی ہے

جنگ ِ عظیم اوّل دو تین سال پہلے ہی جنگ طرابلس اور اس کے فوراً بعد بلقان کی جنگیں ہوئیں ۔ یہ جنگیں 1912-13 ء میں بلقان میں جاری تھیں اور سلطنتِ عثمانیہ کو شکستیں ہوئیں ، علاقہ اقبال کے سامنے بلقان اور طرابلس کی پوری سیاسی عسکری صورتحال تھی اس موقع پر ایک زبردست پرجوش اور ایمانی و روحانی اثرات سے پُر نظم کہی ۔ اس نظم کا عنوان ہے

 (حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں)

گراں جو مجھ پہ ہنگامہ ء زمانہ ہوا

جہاں سے باندھ کے رخت ِسفر روانہ ہوا

قیودِ شام و سحربسر تو کی لیکن

نظامِ کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا

’’فرشتے بزم ِ رسالت میں لے گئے مجھ کو،،

’’حضورؐ آیہء رحمت میں لے گئے مجھ کو،،

کہا حضورؐ نے اے عندلیب ِ باغ ِ حجاز!

کلی کلی ہے تری گرمی ِ نوا سے گداز

ہمیشہ سرخوش ِ جامَِ ولا ہے دل تیرا

فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز

اُڑا جو پستیِ دنیا سے تُو سوئے گردوں

سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز

’’نکل کے باغِ جہاں سے برنگ بُو آیا،،

’’ ہمار ے واسطے کیا تحفہ لے کہ تُو آیا،،

’’حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں

وفاکی جس میں ہو بُو وہ کلی نہیں ملتی

مگر نذر کو میں اک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی

’’ جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں،،

’’ طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہواس میں،،

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں مسلم امت کے اتحاد کا تصور عام مسلمانوں میں ہمیشہ سے رہا اور علامہ محمد اقبال سمیت مسلم امہ کے دانشور مفکرین اور علما اپنے اپنے ملکوں اور قوموں میں عالمی مسلم اتحاد کی کوششیں کرتے رہے لیکن اُس زمانے میں ذرائع ابلاغ ( میڈیا ) اتنا موثر اور وسیع نہیں تھا، ترکیہ کی خلافت بھی ملکوکیت میں تبدیل ہو کر رہ گئی تھی ۔ مگر دوسری جانب ہندوستان سمیت بہت سے اسلامی ممالک اور اِن کی بادشاہتیں ترکی کی خلافت کا ا حترام کرتی تھیں ، یہاں تک کہ جب سلطنت عثمانیہ کمزور ہو کر ختم ہو گئی تو برطانوی ہندوستان کی ریاست حید ر آباد دکن پر نظام بادشاہت جو 1724 ء سے1948 ء تک قائم رہی، اِسی نظام سرکار نے مئی 1799 ء میں مرہٹوں اور انگریزوں کے ساتھ مل کر ٹیپو سلطان کو شکست سے دوچار کیا تھا اور ٹیپو سلطان ریاست میسور میں سر نگا پٹم کے مقام پر شہید ہوا تھا۔ 1798 ء سے یہ ریاست برطانوی ہند کے زیراثر آگئی تھی، اس کے آخری نواب آصف جا ہفتم 1948 ء تک نواب رہے جن کو بھارت کی فوج نے شکست دے کر ریاست کو بھارت میں شامل کر لیا۔

 حیدر آباد دکن کی ریاست 1948 ء تک دنیا کی امیر ترین ریاست تھی اِس کے نواب میر عثمان علی کو 22 فروری 1937 ء کو ٹائم میگزین نے اُس وقت دنیا کا سب سے امیر ترین انسان قرار د یا تھا اور سر ورق پر اُن کی تصویر شائع کی تھی، اسی نواب نے جنگ عظیم اوّل میں انگریزوںکو 10 کروڑ پونڈ نقد اور ہزاروں مسلح فوجی دئیے تھے، یہ رقم آج کے تین ارب ڈالر کے برابر ہے لیکن اسی نواب کا خاندان بھی دنیا کے دیگر بادشاہوں، نوابیں کی طرح ترکی کی سلطنت کا احترام خلافت کے ٹائٹل ( اعزاز) کی وجہ سے کرتا رہا تھا ، 1931 ء میں جب خلافت کا خاتمہ ہو چکا تھا، ترکی کے سلطان کی دو بیٹیوں کی شادیاں نظام حیدر آباد کے دو شہزادوں سے فرانس کے شہر نیس میں ہوئیں اور مہر کی رقوم مجموعی طور پر 10 لاکھ رکھی گئی، خلیفہ کی بیٹی درشہوار کی شادی اعظم جاہ سے اور خلیفہ کی بھانجی شہزادی نیلوفرکی شادی معظم جاہ سے ہوئی، یہ یادگار شادیاں تھیں جن کی وجہ سے نظام حیدر آباد کو ہندوستان کے مسلم معاشرے میں وقار نصیب ہوا کیونکہ ابھی تحریک خلافت کا اثر ہندوستان میں تازہ تھا ، پھر اِن دونوں کا نکاح مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی نے پڑھایا تھا ۔ یہاں یہ بھی واضح کیا جانا ضروری ہے کہ اِن شادیوں سے پہلے خلیفہ کو نظام حیدر آباد کی جانب سے 300 پاونڈ ماہانہ وظیفہ ملتا تھا اور خلافت کا خاتمہ مصطفی کمال پا شا 1924 ء میں کر چکے تھے۔ یہاں ان شادیوں کا ذکر اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ قارئین اُس وقت کی سیاسی صورتحال سے آگاہ ہو جائیں غیرت وحمیت کا ایک واقعہ اقبال کے حوالے سے یوں ہے کہ یوم اقبال پر یکم جنوری 1938 ء کو حیدر آباد دکن کی جانب سے اُن کو ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا گیا تو اقبال نے چند اشعار لکھئے اور چیک واپس بھجوادیا اِ ن میں سے آخری شعر یوں تھا کہ

غیرت ِ فقر مگر کر نہ سکی اِس کو قبول

جب کہا اُس نے کہ یہ ہے میری خدائی کی زکات

 اقبال کے سامنے دنیا میں مسلمانوں کے زوال کی ساری صورتحال تھی ،مسلمانوں کی غداریاں بھی تھیں ،ساتھ ہی جرات و بہادری کی ایمان افروز داستانیں بھی تھیں۔ 1918 ء میں ترکیہ خلافت عثمانیہ کی مکمل شکست پر برصغیر میں خلافت کی تحریک کا خاتمہ چند سال بعد ہو گیا، مگر اقبال اُس وقت بھی پُرعزم اور پُر امید تھے، ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر اُنہوں نے امت مسلمہ کو یوں دلاسہ دیا

اگر عثمانیوں پہ کوہء غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

آج 2024 ء کو عثمانیوں کی خلافت کے خاتمے کو 100 سال پورے ہو چکے ہیں کیونکہ اس خلافت کے خاتمے کا اعلان سر کاری اور عالمی طور پر 1924ء کو ہو گیا تھا ، اگر چہ اس خاندان کے لوگوں کو اب دوبارہ ترکی آنے کی اجازت مل گئی ہے اور بہت سے شہزادے ، شہزادیاں واپس ترکیہ آچکے ہیں مگر اب ترکی میں سو سال سے خلافت نہیں ہے، آج سو سال بعد سوال یہ بھی ہے کہ حجاز مقدس جو بعد میں 1930 ء سے سعودی عرب کہلایا اس سمیت کسی اسلامی ملک نے خلافت کا لفظ اپنی حکومت کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جب کہ دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں میں سو سال بعد بھی اتحاد بین المسلمین کی اجتماعی خواہش زندہ اور پرُجوش ہے ۔  



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں