4

سرکاری یونیورسٹیاں اور عالمی مالیاتی ادارے

سرکاری یونیورسٹیوں میں فیسوں میں مسلسل اضافے کی بناء پر متوسط طبقے کے طالب علم بھی فیسیں ادا نہیں کرپا رہے۔ کراچی یونیورسٹی میں 35 فیصد طلبہ پر 1 ارب 76 کروڑ روپے کی فیس واجب الادا ہے۔ طلبہ کے مسلسل احتجاج کے بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ کچھ رعایت دینے پر تیار ہوئی ہے۔ ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی یہ رپورٹ ہر باشعور شخص کے لیے تشویش کا باعث ہے کہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے تجویز پیش کی ہے کہ سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کو Self Sustainable بنایا جائے۔ اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یونیورسٹیوں میں انتظامی عملے کی تعداد کم کی جائے۔ عالمی اداروں نے ان تجاویز کے ساتھ ایک خطرناک تجویز یہ پیش کی ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کو دی جانے والی تمام گرانٹ بند کردیں۔ یونیورسٹیاں طلبہ سے وصول کی جانے والی فیسوں سے اپنا کام چلائیں اور یونیورسٹیاں اپنی آمدن میں اضافے کے لیے دیگر طریقے استعمال کریں۔

پاکستان میں گزشتہ سال تک سرکاری شعبہ میں 160یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں جب کہ نجی شعبے میں 60 کے قریب یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ اس وقت سرکاری یونیورسٹیوں میں 20 لاکھ کے قریب طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں طالب علموں کا تناسب خاصا کم ہے۔ سرکاری یونیورسٹیاں چاروں صوبوں میں بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے علاقوں تک میں قائم ہیں۔ اس وقت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے علاوہ گلگت بلتستان، ایبٹ آباد، گوادر، خضدار، لسبیلہ، خیرپور، سکھر اور نواب شاہ جیسے پسماندہ علاقوں میں قائم ہیں۔ دور دراز علاقوں میں سرکاری یونیورسٹیوں کے کیمپس بھی قائم ہیں جب کہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں صرف بڑے شہروں میں قائم ہوئی ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کر جنرل آرٹس اور فنون لطیفہ کے موضوعات پر تحقیق ہوتی ہے۔ ملک میں صرف چند پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں جہاں سائنس اور معاشیات کے موضوعات پر تحقیق ہوتی ہے۔ بیشتر پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں اردو، سندھی اور بنیادی سائنس کے علم کے مکمل شعبے بھی قائم نہیں ہیں۔ بیشتر سرکاری یونیورسٹیاں وفاقی حکومت کی گرانٹ سے چلتی ہیں۔ صوبے یونیورسٹیوں کو بہت کم گرانٹ دیتے ہیں۔ صوبہ سندھ یونیورسٹیوں کو گرانٹ فراہم کرنے میں باقی صوبوں سے آگے ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں اخراجات کے مقابلے میں طلبہ سے وصول کی جانے والی فیسیں کم ہوتی ہیں۔ اس بناء پر سرکاری گرانٹ سے ہی یونیورسٹیوں کام کرتی ہیں۔

 اس صدی کے آغاز سے 24 برسوں میں جنرل اور پیشہ ورانہ یونیورسٹیوں کی فیسوں میں کئی سو گنا ہوچکا ہے مگر بیشتر یونیورسٹیاں معاشی بحران کا شکار ہیں۔  وفاقی اردو یونیورسٹی کے علاوہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں مالیاتی بحران اتنا شدید ہے کہ اساتذہ اور عملے کو چار ماہ کی تنخواہ اور ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور اسٹاف کو چار ماہ سے پنشن کی ادائیگی بند ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے موجودہ اور ریٹائرڈ اساتذہ تنخواہوں ور پنشن کی ادائیگی کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔

 کراچی یونیورسٹی کے ایک سینئر استاد کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں کو امداد دینے والے سرمایہ دار اور تاجر اعلیٰ طبقات کے تعلیمی اداروں کی فنڈنگ کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار غریبوں کے تعلیمی اداروں کو امداد دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر سرکاری یونیورسٹیوں کی گرانٹ حیرت انگیز طور پر کم کی تھی۔ سابقہ حکومت میں سرکاری یونیورسٹیوں کی قیمتی زمینوں کو فروخت کر کے یونیورسٹیوں کا مالیاتی خسارہ کم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر بنوری نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یونیورسٹیوں کی زمینوں سے نئی مافیا پیدا ہوگی اور شفافیت کا عمل رک جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف یونیورسٹیاں اپنی قیمتی املاک سے محروم ہونگی تو دوسری طرف بدعنوانی کرنے والے مافیا کے وارے نیارے ہوجائیں گے، یوں ہر یونیورسٹی اسکینڈل کی زد میں ہوگی۔ ان اثاثوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی ختم ہوجائے گی تو پھر یونیورسٹیوں کے پاس معاشی بحران کے حل کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ کراچی یونیورسٹی کے معروف استاد پروفیسر ذکریا ساجد مرحوم کا کہنا تھا کہ امریکا میں نجی شعبہ سرکاری یونیورسٹیوں کی بہت مدد کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی صنعتی پلانٹ کی فزیبلٹی ناکام ہوجاتی تو اس پلانٹ کے مالک یہ پلانٹ کسی اور یونیورسٹی کو عطیہ کردیتے ہیں۔ گزشتہ سال ایک ارب پتی امریکی شہری نے اپنی وصیت کے مطابق جس یونیورسٹی میں اس نے تعلیم حاصل کی تھی اس یونیورسٹی کے نام جائیداد وقف کردی تھی کہ اب یونیورسٹی کے طلبہ سے فیس وصول کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی مگر ہمارے ملک میں ایسے عطیہ دینے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ امریکا اور یورپ میں یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں جو اشیاء تیار کی جاتی ہیں وہ مارکیٹ میں فروخت کے لیے Patent کردی جاتی ہیں۔ ان اشیاء کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ یونیورسٹی کو ملتا ہے۔

اردو یونیورسٹی کے اساتذہ رہنما ڈاکٹر محمد عرفان عزیز نے اس صورتحال کا یوں تجزیہ کیا ہے کہ معاشرے میں تعلیم و تحقیق کے لیے وسائل کی فراہمی عوام کا بنیادی حق ہے اور ریاست کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرے۔ اس سلسلے میں ہونے والے اخراجات کو سرمایہ کاری تصور کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کسی ملک میں انسانی سرمایہ تخلیق پاتا ہے۔ سرکاری سطح پر قائم ہونے والی یونیورسٹیاں اس ذمے داری کو پورا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ وہ عوام کو مفت یا کم قیمت پر بہتر اور معاون ترقی مضامین کی تدریس کر سکتی ہیں۔ اس کے برعکس کمرشل بنیادوں پر چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کی ترجیحات مالی منفعت تک محدود ہوتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کو مالی اعتبار سے منافع بخش بنانے کی کوششوں کے نتیجے میں تعلیم جیسا ضروری سماجی عمل تجارتی عمل میں تبدیل ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم معاشرے کے صرف مخصوص طبقے تک محدود ہو جاتی ہے۔

جس طرح ملک کی عدالتی اور قانون سازی کے نظام کے لیے ریاستی سرپرستی ضروری ہے اور یہ ضروری ہے کہ ان اداروں کو عوام کے وسیع تر مفاد کے لیے تیار کیا جائے اور طبقاتی اثر و رسوخ کو ختم کیا جائے، اسی طرح تعلیمی میدان کو بھی نجی سرمایہ کاری کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم کو ذاتی سرمایہ کاری سمجھنے سے سماج میں انسانی اثاثے کی تعمیر کا عمل رک جاتا ہے۔ جامعات میں ہونے والی تعلیم و تحقیق کے نتیجے میں کسی بھی معاشرے میں مستقبل کے انسانی اثاثے کی تخلیق ہوتی ہے۔ ریاست کا تعلیمی اداروں کی فنڈنگ میں کردار قومی فکری ترقی، معاشی خوشحالی اور سماجی پیش رفت کے لیے انتہائی اہم ہے، اگر ریاست جامعات کو فنڈ فراہم نہیں کرتی، تو وہ اس وسیع تر ترقی کو نظرانداز کرتی ہے جو تعلیم ملک کی فلاح و بہبود میں کرتی ہے۔

ایسے تعلیمی ادارے جہاں مقامی یا قومی ترجیحات کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے، ان کے لیے سرکاری فنڈنگ بہت ضروری ہے تاکہ مقامی اور قومی شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ پاکستان میں گزشتہ 24 برسوں کے دوران سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد میں دگنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کچھ یونیورسٹیوں نے جس میں ایچ ای جے کراچی قابلِ ذکر ہے اپنی تیار کردہ دوائی کو Patent کیا ہے۔ پھر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر حمید نے اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے اوجھا کیمپس میں میڈیکل کالج قائم کیا اور اس کالج سے ہونے والی آمدنی سے اسٹیٹ آف آرٹ لیباریٹری قائم کی جس کے آؤٹ لیٹ کراچی شہر بھر میں عام ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ آف آرٹ ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ اور ایم آر آئی وغیرہ کے ٹیسٹ کے مراکز قائم کیے گئے، یہاں پرائیویٹ لیباریٹریوں کے مقابلے میں سستے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ سندھ جناح یونیورسٹی کراچی میں ایسے ہی لیب قائم کرنے کے مرحلے میں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ورچوئل یونیورسٹی سرکاری شعبے کی واحد یونیورسٹی ہے جس کو گرانٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی تمام سرکاری یونیورسٹیاں بغیر گرانٹ کے چل ہی نہیں سکتیں۔ بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں جب بھی سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اضافہ ہوتا ہے تو طلبہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ طلبہ کا یہ مؤقف ہوتا ہے کہ طلبہ کی اکثریت فیسوں میں اضافے کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ جب بڑے شہروں میں یہ حالات ہونگے تو چھوٹے شہروں کے طلبہ کے لیے فیس ادا کرنا ممکن نہیں ہوگا، اگر حکومت نے عالمی اداروں کی سفارش پر عملدرآمد کیا تو پاکستان اعلیٰ تعلیم میں مزید پیچھے رہ جائے گا۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں