3

سپریم کورٹ نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست خارج کردی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دیں۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر درخواستگزاران کی جانب سے حامد خان پیش ہوئے۔

حامد خان کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف دائر درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ ہم درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے حامد خان سے مکالمہ کیا آپ کو صرف درخواست واپس لینے کے لیے وکیل کیا گیا ہے، عابد زبیری خود بھی درخواست واپس لے سکتے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اعتراضات کے ساتھ دوسری درخواست بھی مقرر ہے، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ ہم دونوں درخواستیں واپس لیتے ہیں۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ نے درخواستیں واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دیں۔

واضح رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے لیے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

سینئر وکیل عابد زبیری نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواست دائر کی تھی، رجسٹرار آفس سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ عابد زبیری کو نوٹس جاری کردیا۔

درخواست میں وزارت وفاقی وزارت قانون، چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا، اسپیکر قومی اسمبلی، سینیٹ، پرنسپل سیکریٹریز ، وزیر اعظم و صدر بھی فریقین میں شامل ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو آئین پاکستان کے برخلاف قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو مجوزہ آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روکا جائے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ قرارداد مقاصد کے تحت عدلیہ کی آزادی آئین پاکستان کا بنیادی جزو ہے لہذا دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کی صورت میں آئینی ترامیم کے نفاذ کو روکا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 238 اور 239 میں ترامیم عدلیہ کی آزادی کو تباہ کردیں گی، پارلیمنٹ آئین پاکستان کے بنیادی جزو میں ترامیم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

درخواست گزار نے کہا کہ پارلیمنٹ ریاست کے ایک اہم ستون کو کمزور کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، ججز کی تقرری کا عمل کسی قسم کی بھی سیاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن میں اراکین پارلیمنٹ کی شمولیت اختیارات کی تقسیم کے اصول کے منافی ہے، ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کو متوازی طور پر چلانے سے انصاف کا نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا، یہ تمام ترامیم خفیہ اور رات کے اندھیرے میں تیار کی گئیں، جو کہ بدنیتی کا ثبوت ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر ، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) لاہور کے صدر شیخ امتیاز محمود نے بھی مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ وفاقی حکومت کو یہ ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روکا جائے۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گزشتہ ماہ سے ایک اہم آئینی ترمیم کی منظوری کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، 16 ستمبر کو آئین میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا تھا۔

کئی دن کی کوششوں کے باوجود بھی آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دی گئی تھی۔

گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا پہنچے جہاں رہنماؤں کے درمیان مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر ’عدالتی اصلاحات تک اتفاق رائے ہوگیا تھا۔


install suchtv android app on google app store

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں