5

سیاست کے کھیل – ایکسپریس اردو

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو بھی معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے کیا مسودہ فائنل کیا ہے۔ یہ اسی پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں جس نے 26 ویں ترمیم کی منظوری سے قبل مولانا کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے سے اتفاق کیا تھا اور گزشتہ روز مولانا کو پی ٹی آئی کے حتمی فیصلے سے آگاہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جس پر مولانا مان گئے تھے اور انھوں نے آئینی ترامیم کے مسودے پر بلاول بھٹو اور پی ٹی آئی کے اتفاق کرنے کے باوجود رات کو ہونے والی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے حتمی جواب سے قبل مذکورہ متفقہ مسودے کی حمایت نہیں کی تھی جس کی حکومت کو توقع تھی۔

عمر ایوب کا یہ کہنا مکمل غلط ہے کہ مولانا کو معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے کیا مسودہ فائنل کیا ہے۔ مولانا کو معلوم تھا کہ انھوں نے اور پی ٹی آئی نے کون سا مسودہ فائنل کیا ہے اور جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے واضح کر دیا تھا کہ بلاول بھٹو اور حکومت نے مولانا کے ساتھ جو مسودہ فائنل کیا ہے، اس میں حکومت نے اگر معمولی رد و بدل کیا تو مولانا سے کیے گئے حکومتی فیصلے سے انحراف ہوگا اور جے یو آئی ترامیم پر ووٹ نہیں دے گی۔

آئینی کمیٹی میں تو 26 شقوں پر اتفاق ہوا تھا اور اتفاق کرنے والی پارٹیوں میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی اور مولانا نے پی ٹی آئی کی وجہ سے ہی مزید چار شقیں کردی تھیں جس پر سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا تھا کہ آئینی کمیٹی میں 26 شقوں پر اتفاق ہوا تھا اور جے یو آئی نے متفقہ فیصلے سے بھی نہ جانے مزید چار شقیں کم کردی ہیں اور سینیٹ میں صرف 22 شقیں پیش ہوئیں اور چار پیش ہی نہیں ہوئیں۔

پی ٹی آئی بضد تھی کہ پیر کو انھیں بانی سے ملاقات کا ایک اور موقعہ دیا جائے جو حکومت نے نہیں دیا کیونکہ حکومتی حلقوں کو سو فی صد یقین تھا کہ پی ٹی آئی ملاقات کے بہانے مزید وقت ضایع کرنا چاہتی ہے جب کہ حکومت کے پاس ضایع کرنے کے لیے بالکل وقت نہیں ہے اور اسے ہر حال میں سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی ترامیم منظور کرانا ہیں۔ مولانا نے پی ٹی آئی کو مزید مشاورت کا وقت دیا تھا جب کہ ہر ایک کو پتا تھا کہ آئینی کمیٹی میں اتفاق ہو چکا تھا اور پی ٹی آئی نے 26 شقوں کی منظوری سے اتفاق کیا تھا جس کے اعلان کے بعد آئینی کمیٹی میں شامل نہ رہنے والوں نے تحریک انصاف پر تنقید کی تھی جس سے ظاہر ہو گیا تھا کہ پی ٹی آئی گیم کر رہی ہے۔

آئینی کمیٹی میں اتفاق کے بعد مولانا سے مشاورت میں مزید چار شقوں سے مولانا کو ہٹنے پر راضی کیا تھا اور مولانا پی ٹی آئی کے باعث مان گئے تھے مگر مولانا سے رات کو مشاورت کے بعد حتمی فیصلے کا وقت لے کر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے مولانا کو بھی دھوکا دیا اور گزشتہ روز وہ مولانا کے پاس نہیں آئے اور مولانا کو اعتماد میں لیے بغیر پی ٹی آئی رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں آئینی ترامیم پر اتفاق کے باوجود پارلیمنٹ میں ووٹ دینے سے انکارکردیا اور حکومت پر جھوٹا الزام لگا دیا کہ اس نے ہمارے دو سینیٹر غائب کردیے ہیں اور انھیں منحرف کرا کر ووٹ حاصل کیے جائیں گے۔

 مذکورہ دونوں سینیٹرز کہہ چکے تھے کہ بانی کے ساتھ ہیں۔ حکومت نے بی این پی مینگل کے دو سینیٹروں کی حمایت سے سینیٹ سے 26 ویں ترمیم منظور کرا لی اور جے یو آئی کے سینیٹروں نے ترامیم کی حمایت کی ۔

یہ حقیقت ہے کہ اقتدارکے لیے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا کو نظر انداز کر دیا تھا جس کا فائدہ پی ٹی آئی نے فوراً اٹھایا اور اپنے بانی کے کردار کو بھول کر مولانا کے پاس آگئے اور مولانا  نے پی ٹی آئی کو مایوس نہیں کیا پی ٹی آئی کے اسد قیصر کا کھانا کھانے پہنچ گئے جب کہ اس سے قبل صدر مملکت اور وزیر اعظم مولانا کیپاس آچکے تھے۔

مولانا اقتدار کی بندر بانٹ میں پی پی اور (ن) لیگ کی مفاد پرستی کو نہیں بھولے ۔ مولانا سارے کھیل میں بہت خوبصورت انداز میں کھیلے۔ مولانا نے آئینی عدالت کے قیام کے بجائے آئینی بینچزکے قیام کا مطالبہ کیا ، انھوں نے بعض ترامیم مسودے سے نکلوا دیں ۔ پی ٹی آئی کے شور مچانے والے مولانا کے شکر گزار ہوں کہ ہم وہ شقیں ختم نہ کراتے تو وہ ہاتھ باندھ کر فوجی عدالتوں میں کھڑے ہوتے ہم نے حکومت کو من مانی ترامیم نہیں لانے دیں۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں اپنے بیٹے سمیت اہم عہدوں کے حامل رہے اور نگران حکومت اور گورنر کے پی ان کا اپنا تھا وہ کے پی میں انتخابات میں مطلوبہ پوزیشن حاصل نہ کر سکے۔ پی ٹی آئی حکومت میں جے یو آئی نے پشاور اور متعدد اضلاع کی بلدیاتی اداروں کی سربراہی جیتی تھی مگر فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے کے پی سے جے یو آئی کا صفایا کر دیا۔

خود مولانا ان کے بیٹے اور عزیز ہارے مگر مولانا الیکشن ہارنے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے قریب چلے گئے اور انھوں نے (ن) لیگ اور پی پی کے ساتھ وہی کچھ کیا جو دونوں جماعتوں نے حکومت سازی میں ان کے ساتھ کیا تھا۔

مولانا کو پتا ہے کہ کے پی میں ان کی اصل حریف پی ٹی آئی ہے اور ان کے پارٹی رہنما بھی یہ جانتے ہیں کہ آج مولانا کی تعریفیں کرنے والے پی ٹی آئی کے پی کے رہنماؤں سے ان کا مقابلہ ہونا ہے مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے مولانا نے بڑی مہارت سے سیاست کی ۔اب مطلب نکلتے ہی پی ٹی آئی کے مولانا کی تعریفیں کرنے والوں نے 26 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اپنے بانی سے ملاقات میں انھیں بتایا کہ مولانا نے حکومت کا ساتھ دیا ۔ اب پی ٹی آئی والے مولانا کے پاس نہیں جا رہے نہ ان کے شکرگزار ہیں ۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں