اسلام آباد:
پاکستان نے ایک بار پھر چین سے مشترکہ مالیاتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے تاکہ ریلوے کے ایک بڑے منصوبے ایم ایل ون کے لیے ایک ارب ڈالر قرض کی شرائط و ضوابط کو طے کیا جاسکے.
تفصیلات کے مطابق یہ درخواست گزشتہ ہفتے چین میں پاکستانی سفارتی ذرائع کے ذریعے بیجنگ سے کی گئی تھی اور واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران چین سے دوسری بار اس حوالے سے درخواست کی گئی ہے۔
یہ بات پاکستان ریلوے کے ایک سینئر اہلکار نے جمعرات کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ کو بتائی کہ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے چین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ دونوں ممالک کی مالیاتی کمیٹی کا پانچواں مشترکہ اجلاس بلائے تاکہ اس میں سی پیک کے ایک اہم منصوبے ایم ایل ون کے حوالے سے پیش رفت ہوسکے۔
قائمہ کمیٹی کی صدارت پیپلز پارٹی کے عبدالقادر گیلانی کررہے تھے۔ پاکستان ریلوے کا ایم ایل ون واحد ایسا منصوبہ ہے جسے سی پیک میں اسٹریٹجک اہمیت حاصل ہے تاہم پاکستان کی کمزور مالی حالت کے باعث یہ منصوبہ چھ سال سے تاخیر کا شکار ہے۔
پاکستان کی خواہش تھی کہ 10 ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ مکمل تعمیر کیا جائے جبکہ چین کا کہنا تھا کہ فی الحال کراچی تا حیدر آباد منصوبے کو تعمیر کیا جائے جس پر ایک ارب 10 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی جس کے حوالے سے ریلوے افسر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس منصوبے کے لیے پاکستان چین سے 95 کروڑ ڈالر قرض حاصل کرے گا۔
کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ چار اجلاس ہونے کے باوجود اس منصوبے کی تعمیر کے لیے شرائط و ضوابط تاہم ابھی تک طے نہیں ہوسکے ہیں اس کے علاوہ وزارت سطح کی کمیٹیوں کے نو اور مشترکہ ورکنگ گروپ کے بھی بیس سے زیادہ اجلاس ہوچکے ہیں تاہم اس منصوبے پر پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایک سوال پر ریلوے سینئر افسر کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے چین سے قرض شاید 2 اعشاریہ 3 فیصد شرح سود پر لیا جائے جبکہ پاکستان نے 1 فیصد شرح سود کی درخواست کی تھی تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایسا نظر آتا ہے کہ اس بار بھی اس منصوبے کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ حکومت نے اس منصوبے کے لیے پیشکش کی وصولی کی حتمی تاریخ 30 اکتوبر مقرر کی تھی جبکہ مالیاتی اور تکنینی تخمینے کا کام مکمل کرنے کے لیے 25 نومبر کی تاریخ حتمی طے کی گئی تھی اس کے علاوہ حکومت چاہتی تھی کہ انجینئرنگ اور تعمیراتی کام کے ٹھیکوں کو بھی 26 دسمبر تک حتمی طے کرلیا جائے اور پھر چین سے قرض معاہدے پر دستخط کیے جائیں تاکہ اگلے سال جنوری میں اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز ہوسکے۔