پاکستان میں ہر فرد صحت مند رہنے، خوشی اور ترقی کا خواب دیکھتا ہے۔ خواہش کا پیدا ہونا یا خواہش کو پالنا صحت مند سوچ اور فکر کی عکاسی کرتا ہے ۔لیکن اگر اچھی صحت کی خواہش محض سوچ تک محدود رہیں اور عملی طورپر ہم کچھ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں اوراس کے روڈ میپ پر عمل نہ کریں تو اچھی صحت اور خوش رہنا محض ہماری سوچ یا خواہش ہی بن کر رہ جائے گی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد مختلف بیماریوں کا شکار نظر آتی ہیں ۔ذہنی دباؤ ، ڈیپرشن ، ذہنی خلفشار، نقاہت ، اکتاہٹ ، تخلیقی کاموں سے دوری ، نیند نہ آنا، خوراک کے اوقات کار کا غلط ہونا ، جسمانی ورزش یا کھیل یا واک کا نہ ہونا معمول کا حصہ بن گیا ہے ۔
اچھی صحت کیا ہوتی ہے ، اس کے لیے ضروری لوازمات کیا ہیں، اس حوالے معروف اسپورٹسمین ، جرنلسٹ ، ڈائٹ اینڈ نیوٹریشنسٹ خالد جمشید سے بہت کچھ جاننے کو ملا ہے۔ کرکٹ کے اچھے کھلاڑی رہے اور میچ ریفری بھی رہے ہیں ۔ انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز ، ایم بی اے کیا او رپھر ڈایٹ اینڈ نیوٹریشن اینڈ اپلائڈ سایکالوجی میں مینٹل ہیلتھ کونسلنگ میں کئی اہم ڈپلومے حاصل کیے ۔ Green Habits کے نام سے ایک ادارہ کے سربراہ بھی ہیں ۔اچھی صحت کے لیے ا ن کا یک نکاتی ایجنڈا ”عادات بدلیں اور زندگی بدلیں ” ہے ۔وہ ممتاز بینکر ہیں اور اپنی زندگی کا بیانیہ اچھی صحت ہے ۔
حال ہی میں ان کی دو اہم کتابیں اول The Simple Art of Holostic Well- Being جب کہ ان کی دوسری کتاب The Windfall of Happiness(Cap turing Happiness in Every Breath) شایع ہوئی ہیں۔ ان انھوں نے ذاتی تجربے ، مشاہدے پر فوکس کیا ہے۔ میرا ان سے کئی دہائیوں کا تعلق اور دوستی ہے ۔ وہ لاہور کے معروف ماڈل ٹاون پارک میں اپنی مجلس سجاتے ہیں، ان کی یہ دونوں کتابیں ریڈنگ بکس سے مل سکتی ہیں ۔
آج ہمارے سماج میں سیاسی ،سماجی اور معاشی ، خاندانی دباؤ، تناؤ، تکالیف اور دکھ زیادہ ہیں ۔ آپ نئی نسل کو بھی دیکھیں تو وہ اپنی عمرسے بڑے ، چہروں پر اداسی ، مایوسی ، حالات اور مستقبل کے بار ے میں غیر یقینی غالب نظر آتی ہے ۔ایسے میں ذہنی دباؤ انسان کی شخصیت اور صحت کو خرابی کی طرف لے کر جارہا ہے اورہم مجموعی طور پر زندگی کی رعنائیوں ، خوشیوں ، مسکراہٹ اور اپنے بہتر سماجی یا پروفیشنل تعلقات میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ہم نے اپنی زندگی کو خود مشکل بنادیا ہے ۔ ہم اپنی عادات اور طرز عمل میں منفی رویے کو اختیار کرتے ہیں جو ہمیں اچھی صحت اور خوشی سے دور کرتے جارہے ہیں ۔ اس لیے مسئلہ محض حالات کے ماتم سے نہیں بلکہ مشکل حالات میں اپنی زندگی کے معمولات میں بہتری کی بنیاد پر بہتر تبدیلیوں کو ممکن بنانے سے جڑی ہوئی ہیں ۔ واک کرنا ، ورزش کرنا ، چہل قدمی کرنا ، خوارک کا بہتر نظام بنانا ، بہتر سونا اور خود کو سماجی سطح پر ایک مضبوط رشتوں میں ڈھالے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔
مصنف نے ماڈل ٹاون کے ایک پڑھے لکھے کاروباری فرد ضیا چاولہ کا حوالہ دیا ہے جو مجلسی بھی ہیں اور مطالعہ کا شوق بھی رکھتے ہیں ، وہ خوش رنگ لباس پہنتے ہیں، لباس اور ہیٹ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ گھر کا بنا کھانا کھاتے ہیں،،میوزک سنتے ہیں ، دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور سیاسی،سماجی مباحث ہوتے ہیں ۔خالد جمشید کی پہلی کتابیں درس دیتی ہیں کہ خوشیوں کی بہار کو کیسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے اور صحت مند زندگی کو گزارنے کا فن کیسے سیکھا جاسکتا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد پڑھنے والوں کو ایک مکمل اچھی زندگی کو اختیار کرنے کا نصاب کی حیثیت رکھتی ہے اور بتاتی ہے کہ خوشی کا تعلق کیا محض دولت، اختیار، شہرت اور بڑی بڑی نمود نمائش سے ہے یا ان چیزوں کی عدم موجودگی سے بھی ہم اپنے لیے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو جمع کرکے یا سمیٹ کر اپنی زندگی میںمثبت رنگ بھر سکتے ہیں ۔انگریزی میں پاکستان کے حالات کو بنیاد بنا کر ایسی کتابیں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں اور یہ دونوں کتابیں واقعی اہمیت بھی رکھتی ہے اور اس کا احساس کتاب کے مطالعہ کی بنیاد پر ہی کیا جاسکتا ہے، مصنف نے ان کتابوں میں خود سے چالیس سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں ، سوچے ہیں ، عرق ریزی کی ہے ، غوروفکر کیا ہے ، اس پر مباحثہ کیا ہے مختلف ماہرین سے اور خود سے بہت سے اہم سوالوں کے جوابات تلاش کیے ہیں ۔ زیادہ تر غوروفکر مادل ٹاون پارک میں کیاگیا اور اسی سبزہ میں سبزاور ترو تازہ خیالات کو بنیاد بنا کر پیش کیا ہے ۔