میں اب سے چند روز قبل موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات پر کالم لکھ چکی ہوں اور آج کا موضوع بھی بڑا اہم ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، مگر ان کے اثرات کی گہرائی کو محسوس کرنے والا طبقہ بہت محدود ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں آلودگی کی سطح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے اور دیہی علاقے پانی کی قلت اور زمین کی زرخیزی میں کمی کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔
صنعتی کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، گاڑیوں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گھروں میں جلنے والے کوئلے کے دھوئیں نے فضائی آلودگی کی صورتحال کو انتہائی نازک بنا دیا ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے اس سے بھی زیادہ سنگین ہوچکا ہے، جتنا ہم سوچتے ہیں، کیونکہ یہ صرف فضائی آلودگی تک محدود نہیں بلکہ پانی، زمین اور یہاں تک کہ ہمارا خوراک کا نظام بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کا مسئلہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور جیسے بڑے شہر اسموگ میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اسموگ ایک ایسا خطرناک مرکب ہے جو فضا میں مختلف کیمیائی مادوں کے ملاپ سے بنتا ہے اور سانس کی بیماریوں کے علاوہ دل کی بیماریوں، کینسر، اور بچوں میں پیدائشی نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد، بے ہنگم صنعتی ترقی اور صفائی کی کمی نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
پانی کی آلودگی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا سامنا پاکستان کے دیہی اور شہری دونوں علاقوں کو درپیش ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں میں صنعتی فضلہ اور کیمیائی مادوں کا بے دریغ اخراج پانی کے قدرتی ذخائر کو زہر آلود بنا رہا ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر میں بھی کیمیکلز کی موجودگی بڑھ رہی ہے اور کھیتوں میں کیڑے مار ادویات اور کھادوں کا بے جا استعمال زمین اور زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر لوگ صاف پانی کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں اور بچوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں غیر متوقع اور شدت سے بھرپور موسمی حالات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں بارشوں کا سلسلہ انتہائی کم ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے خشک سالی کا سامنا ہے۔ کسان اپنی زمینوں سے پوری پیداوار حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور زراعت کا شعبہ اس صورتحال میں شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے برعکس شمالی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں بارشوں اور سیلابوں کا سلسلہ بڑھ رہا ہے، جس نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے اور لوگوں کی زندگیاں اور املاک کو شدید خطرات میں ڈال دیا ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سنگین مسئلے کو حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں ہمارا حصہ بہت کم ہے، مگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ امیر ممالک اپنی ذمے داری قبول کریں اور ان آلودگیوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جو دنیا کے غریب ممالک کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جنگلات کا کٹاؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ جنگلات کسی بھی ملک کی فضائی اور زمینی بقا کے ضامن ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں درختوں کو بے دریغ کاٹا جا رہا ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے جنگلی حیات کا مسکن ختم ہو رہا ہے اور متعدد جانور ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے زمینی کٹاؤ بھی بڑھ رہا ہے، جو زمین کی زرخیزی کو متاثر کر رہا ہے اور زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔
پاکستان کے مستقبل کے لیے ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے، اگر ہم نے آج اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہ کیا اور حکومتی و عوامی سطح پر عملی اقدامات نہ اٹھائے تو مستقبل میں ہمیں ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں عوامی آگاہی بڑھانے، شجر کاری مہمات کو فروغ دینے اور انڈسٹریل فضلہ کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی مہمات چلائی جانی چاہئیں تاکہ نئی نسل اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھے اور اس کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر عملی اقدامات کرے اور ملک میں شجرکاری اور پانی کے ذخائر کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ مزید یہ کہ توانائی کے متبادل ذرایع جیسے شمسی اور ہوائی توانائی پر بھی سرمایہ کاری کر کے ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں جیسے پلاسٹک کے استعمال کو کم کریں، پانی کا ضیاع نہ کریں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
اگر ہم نے آج اس مسئلے کو نظر انداز کیا تو آنے والی نسلوں کے لیے زمین کے وسائل ناکافی ہوجائیں گے اور زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم قدرت کے ساتھ جتنا بھی کھلواڑ کریں گے، وہ ہمارے سامنے آ کر کھڑا ہوگا۔ پاکستان کی بقا اور اس کی نسلوں کی سلامتی کے لیے ہمیں ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس ملک کی زمین، دریا اور فضائیں ہمارے بچوں کی امانت ہیں اور ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔