4

ٹرمپ کا پاکستان – ایکسپریس اردو

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ویسے تو امریکی صدارتی انتخاب کا عالمی سیاست پر گہرا اثر ہے تاہم امریکی پالیسیاں عموماً یکساں ہی رہتی ہیں۔

کوئی بھی جیتے اسرائیل کے لیے وہی پالیسی رہے گی۔ لیکن کئی موقع پر صدر بدلنے سے پالیسی بدلتے بھی دیکھی ہے البتہ ایسا بہت کم بار ہوا ہے۔اگر ٹرمپ افغانستان سے افواج کو نکالنا چاہتے تھے تو بائیڈن نے بھی افواج نکالیں۔ دونوں مخالف سیاستدان ہیں لیکن افواج نکالنے پر دونوں کی ایک ہی پالیسی تھی، طریقہ کار پر اختلاف ضرور نظر آیا۔ ٹرمپ بس یہی کہتے نظر آئے میں ہوتا تو بہتر طریقے سے نکالتا، یہ پالیسی کا اختلاف نہیں ہے۔

اس تمہید کا مقصد یہی ہے کہ امریکی صدر بدلنے سے امریکا کی پاکستان کے لیے پالیسی میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کے لیے ٹرمپ کی پالیسی بائیڈن سے مختلف ہو گی۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ ان کے لیے امریکی صدر کی پالیسی میں فرق آجائے گا۔ تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کے ٹرمپ کے صدر بننے پر جو بیانات سامنے آئے ہیں۔

 ان میں خاص گرم جوشی اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔ بائیڈن کے لیے نفرت اور ٹرمپ کے لیے محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر ٹرمپ کے جیتنے پر خوشی قابل دید ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے امریکا میں تحریک انصاف کا صدر آگیا ہے۔ ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جیسے یہ جیت ٹرمپ کی نہیں بانی تحریک انصاف کی ہے۔آپ ان سے بات کریں تو وہ ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے ٹرمپ ان کے امیدوار تھے۔ اور ان کی وجہ سے جیتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف ٹرمپ کی حمایت نہ کرتی تو ٹرمپ کا جیتنا مشکل تھا۔

اس لیے ٹرمپ کے جیتنے پر تحریک انصاف شائد ٹرمپ کے حامیوں سے زیادہ خوشی منا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ آئے گا تو بانی تحریک انصاف جیل سے رہا ہو جائیں گے۔ اب مجھے نہیں معلوم یہ کیسے ہوگا۔ لیکن آپ دیکھیں سابق سنیٹر مشاہد حسین بھی یہی فرما رہے ہیں کہ واشنگٹن سے ایک کال آئے گی اور بانی تحریک انصاف رہا ہو جائیں گے۔

ویسے تو تحریک انصاف اوورسیز کافی عرصہ سے بانی تحریک انصاف کی رہائی اور تحریک انصاف کو واپس اقتدار میں لانے کے لیے امریکا میں لابنگ کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی کانگریس کی قرار داد اور اراکین کانگریس کا بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے امریکی صدر کو خط۔ تاہم اس ساری لابنگ کے ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔ لیکن تحریک انصاف کا موقف یہی ہے کہ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی آپ کو نتائج نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

 پاکستان میں تحریک انصاف نے یہی ماحول بنا دیا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ان کی جیت ہے جب کہ پاکستان اورحکومت کی ہار ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ٹرمپ پاکستان کی موجودہ حکومت کو ایک دن برداشت نہیں کریں گے بلکہ صدارت کا حلف لیتے ہی پہلا حکم پاکستان میں حکومت بدلنے کا ہی جاری کریں گے۔ وہ موجودہ حکمرانوں کو ایک دن اقتدار میں نہیں رہنے دیں گے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ سے بات ہو گئی ہے ۔ بس ٹرمپ کے حلف اٹھانے کی دیر ہے اور بانی تحریک انصاف کے لیے وزارت عظمیٰ کے دروازے کھل جائیں گے۔

تحریک انصاف کے دوست کہہ رہے ہیں کہ آپ دیکھیں گے کہ یہی پاکستانی اسٹبلشمنٹ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد کیسے بانی تحریک انصاف کے قدموں میں گرتی ہے۔ کیسے اسٹبلشمنٹ معافیاں مانگے گی۔ ماحول یہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے سربراہ خود اڈیالہ سے بانی پی ٹی آئی کو لینے جائیں گے اور درخواست کریں گے کہ آپ اقتدار سنبھال لیں۔

میں نے تحریک انصاف کے کئی دوستوں سے پوچھا ہے کہ یہ سب کچھ جو آپ کہہ رہے ہیں کب تک ہوجائے گا۔ جب میں نے کئی دوستوں سے اس سارے عمل کی ٹائم لائن پوچھی تو ان کے پاس کوئی ٹائم لائن نہیں ہے۔ کوئی بھی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ یہ سب کب تک ہو جائے گا۔ لیکن ایک امید ہے کہ یہ سب ہو جائے گا۔ اڈیالہ کا دروازہ کھل جائے گا۔ کب کا جواب نہیں ہے۔ اس پر خاموشی ہے۔ یہ سب کیسے ہوگا کہ سوال کے جواب میں بس یہی کہا جاتا ہے کہ آپ کو نہیں پتہ امریکی صدر کتنا طاقتور ہوتا ہے۔ اس نے آنکھ کا اشارہ کرنا ہے تو یہاں سب ٹھیک ہوجانا ہے۔بس انھوں نے دیکھا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

بہر حال یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ تحریک انصاف کی امیدیں اور خواہشات اپنی جگہ۔ انھیں آج امریکی صدر سے امید ہے کہ وہ پاکستان میں ان کے لیے مداخلت کرے گا تو یہ بھی ٹھیک ہے۔ آج تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کی پاکستان میں اقتدار لینے کی ساری امیدیں امریکی صدر سے ہیں۔ وہ امریکی صدر کے اشارے کے منتظر ہیں۔

ہمیں مثالیں دیکر بتایا جاتا ہے کہ کب کب امریکا نے پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کے لیے مداخلت کی ہے۔ اگر ماضی میں اتنی مداخلت ہوئی ہے تو اب کیوں نہیں ہو سکتی۔ اب بھی ہوگی۔ یہ وہی امریکا ہے۔ اور ٹرمپ کا مزاج بھی ایسا ہے کہ وہ جو کرنے کی ٹھان لیں تو اس کی راہ میں رکاوٹ برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے جب انھوں نے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے اور بانی تحریک انصاف کو چھڑانے کا فیصلہ کر لیا تو وہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔ ہر رکاوٹ کو تباہ کر دیں گے۔

بہر حال مجھے یہ سب کچھ ممکن نظر نہیں آتا۔ مجھے لگتا ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا ہے۔ یہ سب امیدیں اور خواب ٹوٹ جائیں گے۔ لیکن فی الوقت اس نے تحریک انصاف کے عام کارکن کو ایک امید ضرور دے دی ہے۔ تحریک انصاف نے ٹرمپ کے جیتنے سے اپنے لوگوں میں امید پید اکی ہے۔ اب وہ کب ٹوٹے گی وہ ایک الگ بات ہے۔ یہی وہی امید ہے جو پہلے جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے سے لگائی گئی تھیں۔ لیکن وہ نہ بن سکے اور امیدیں ٹوٹ گئیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بار امیدیں ٹوٹنے میں وقت لگے گا۔ لیکن دوسری طرف اگر ٹرمپ کے صدر بنتے ہی بانی تحریک انصاف پر سختی شروع ہو گئی، انھیں مزید سزائیں ہو جاتی ہیں تو کیا ہوگا۔

اگر مزید سزاؤں کے بعد بھی ٹرمپ کا فون نہیں آیا تو کیا ہوگا۔ اگر ملٹری ٹرائل شروع ہو جاتا ہے تو اور ٹرمپ کا فون نہ آیا تو کیا ہوگا۔ اس لیے یہ امید چند دن میں بھی ٹوٹ سکتی ہے اور کئی ماہ قائم بھی رہ سکتی ہے۔ کھیل دلچسپ ہے۔ کل تک امریکا پر مداخلت کا الزام لگانے والی جماعت آج مداخلت کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ کل دوسروں کو امپورٹڈ کا طعنہ دینے والے آج خود امپورٹڈ بننے کے لیے بے تاب ہیں۔کل تک ڈونلڈ لو کو گالیاں دینے والے آج اپنے لیے ڈونلڈ لو کی تلاش میں ہیں۔ کل سائفر لہرانے والے آج اپنے لیے سائفر کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہی ہے ٹرمپ کا پاکستان۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں