4

ٹریفک حادثات

اسلام آباد (مجاہدحسین، ابوبکرخان) پاکستان میں ٹریفک حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ، 2019 سے اوسطا 1701 چھوٹے بڑے ٹریفک حادثات میں 32 افراد روزانہ جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ 

ہم انویسٹی گیٹس کو موصول سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں پچھلے 6 سال کے دوران  25 لاکھ چھوٹے بڑے ٹریفک حادثات ہوئے ، جن میں مجموعی طور پر 70 ہزار 600 افراد کے زندگی کے چراغ گل جبکہ 40 لاکھ افراد زخمی ہوئے۔

ملک بھر میں 61456 خطرناک حادثات کے مقدمات درج کیے گئے ہیں پانچ سال میں لاہور 9 لاکھ 67 ہزار حادثات کے ساتھ سرفہرست ، کراچی 4 لاکھ ، 58 ہزار حادثات کیساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ پنجاب میں 15 لاکھ 61 ہزار چھوٹے بڑے حادثات رونما ہوئے۔

چھوٹے بڑے حادثات میں روزانہ 32 افراد زندگی کی بازی ہارنے لگے

ہم انویسٹی گیٹس نے یہ تمام اعداد وشمار ریسکوپنجاب، ایدھی، پاکستان بیور،نیشنل ہائی وے، موٹروپولیس، صوبائی پولیس، صوبائی ہائی وے، وزارت داخلہ اورروڈ سیفٹی نیٹ ورک سے حاصل کیے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 3 لاکھ 14 ہزار حادثات ہوئے ، صرف پشاور میں ایک لاکھ 90 ہزار رونما ہوئے، سندھ میں 7  لاکھ اور بلوچستان میں 111245 حادثات پیش آئے۔

اسلام اباد میں 5501 حادثات کے نتیجے میں 1596 جاں بحق اور4574 افراد زخمی ہوئے، پنجاب میں 18001 اور سندھ میں 12286 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔

خیبر پختونخوا میں 7545 اور بلوچستان میں 5969 افراد لقمہ اجل بنے ، پنجاب میں 16 لاکھ 56 ہزارجبکہ سندھ میں 32 لاکھ 89 ہزار ، خیبر پختونخوا میں ڈھائی لاکھ جبکہ بلوچستان میں ایک لاکھ 15 ہزار مسافر زخمی ہوئے، ان میں 71 فیصد موٹرسائیکل ، 20 فیصد کار اور بڑی گاڑیوں اور رکشوں کے حادثات شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد ڈرائیور بغیر لائسنس گاڑی چلاتے ہیں، 6 سال میں 109 ارب روپے کی مالیت کی ساڑھ 36 لاکھ گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں تباہ ہوئیں۔

پنجاب میں سب سے زیادہ حادثات ، سندھ دوسرے نمبر پر

پاکستان میں لگ بھگ 4 کروڑ سے زائد گاڑیاں اور موٹرسائیکل رجسٹرڈ ہیں جبکہ 13 لاکھ موٹر سائیکلیں اور رکشے بغیر رجسٹریشن کے چل رہے ہیں۔

انڈس ہائی وے، ملتان مظفرگڑھ اورکوئٹہ کراچی ہائی وے خطرناک ترین روڈ قراردی جا چکی ہیں، ان تینوں سڑکوں پر 5 سال میں 320 خطرناک حادثات میں 7 ہزارسے زائد مسافر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں کی خستہ حالی بھی بتائی جا رہی ہے ،پنجاب میں 5 ہزار کلومیٹر، خیبر پختونخوا 980 ، سندھ 3 ہزار اور بلوچستان 1879 کلومیٹرسٹرکیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا انکشاف کرکے ہمارے ہوش اُڑا دیتا ہے کہ پاکستان میں ہرسال سڑک حادثات میں گیارہ ہزار افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ 50 ہزار سے زائد شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔

شاہراہوں پر ہونے والے مہلک حادثات میں جانی نقصان اور مالی نقصانات کوہماری حکومتیں اور سرکاری ادارے یکسر رد کردیتے ہیں لیکن متبادل کے طور پر اِن کے پاس کوئی اعداد وشمار یا حقائق نہیں ، اِن کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں روڈ سیفٹی کے مسائل ہیں، حادثات کی ہلاکت خیزی کو کم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

 13 لاکھ موٹر سائیکلیں اور رکشے رجسٹریشن کے بغیر ، حادثات کی ایک وجہ ٹریفک قوانین میں خامیاں 

بنیادی طور پر مہلک حادثات میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ کمزور ٹریفک قوانین،لاپرواہی، روڈ سیفٹی سے متعلق نہ ہونے کے برابر معلومات، سڑک پر گاڑی چلانے کے لیے درکار ڈرائیونگ لائسنس اور ڈرائیونگ سینس نہ رکھنے ، کم عمر ڈرائیوروں کی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی تعداد، ٹریفک پولیس میں تربیت اورنفری کی شدید ترین کمی،خستہ حال سڑکیں ہیں۔

ایک بڑی وجہ ٹریفک قوانین میں موجود لاتعداد خامیاں ہیں ، اگر حادثے میں دس افراد بھی مارے جائیں تو اگلے ہی روز ڈرائیور ضمانت پر رہا ہوجائے گا اورحادثہ کی ذمہ دار گاڑی سپرداری پر مالک کو واپس مل جائے گی،یہ سب عوامل مل کر پاکستان کی سڑکوں کو قتل گاہوں میں تبدیل کر چکے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق 2020ء سے2024ء تک مہلک سڑک حادثات میں 77 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اگر یہ رفتار ایسے ہی رہی تو2030ء تک جان لیوا سڑک حادثات میں 200 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ روڈ سیفٹی کے اداروں کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر ایک منٹ بعد ایک مہلک حادثہ رونما ہوتا ہے۔

کارساز ٹریفک حادثہ، ڈاکٹروں نے ملزمہ کی ذہنی حالت درست قرار دیدی

سروے میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ پاکستان میں 48 فیصد ڈرائیور بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں ، بڑی شاہراہوں خاص طور پر نیشنل ہائی ویز، خاص طور پر شمالی علاقہ جات اور پہاڑی علاقوں میں سے گزرنے والی سڑکوں پر بڑے حادثات کی زیادہ تعداد دیکھنے کو ملتی ہے لیکن مہلک حادثات کے حوالے سے پاکستان کی سب سے پہلی اسلام آباد لاہور موٹر وے کی 10 کلومیٹر پر محیط ڈھلوانی پٹی سالٹ رینج قبرستان کا دروازہ بن چکا ہے ، یہ ڈھلوانی پٹی سینکڑوں افراد کی جان لے چکی ہے۔

48 فیصد ڈرائیور بغیر لائسنس کے سڑک پر آ جاتے ہیں ، اعداد و شمار

90 کی دہائی کے وسط میں جب اس موٹر وے کوتعمیر کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا تواس وقت معلوم ہوا کہ برسراقتدار پارٹی کے دو اہم ترین رہنما اس موٹروے کو اپنے اپنے انتخابی حلقے سے جوڑنا چاہتے ہیں تاکہ زبردست ترقیاتی منصوبے سے مستقبل میں بھرپور سیاسی فوائد اُٹھائے جا سکیں۔ جب کہ موٹر وے تعمیر کرنے والی کورین کمپنی کے انجینئرز کی رائے میں اس طرح کرنے سے ایک تو موٹر وے کی طوالت تقریباً ائک سو کلومیٹر بڑھ جائے گی اور دوسرا اس کی لاگت میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو جائے گا۔

تیسرا نکتہ یہ پیش کیا گیا کہ دو مختلف سمتوں کو اس موٹروے سے جوڑ دینے سے سالٹ رینج کے اُس خطرناک حصے کو سڑک میں شامل کرنا پڑے گا جس کی ڈھلوان موٹروے پر محفوظ ڈارئیونگ کو مشکل بنا دے گی لیکن تعمیراتی کمپنی کے ان اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا اور سالٹ رینج کی سب سے خطرناک چڑھائی اور ڈھلوان کو اس سڑک کا حصہ بنا دیا گیا۔

کوٹ ادو ، ٹرک اور وین میں خوفناک تصادم ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم کے ساتھ بات کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے جنرل مینیجر نے کہا کہ کسی جنگ زدہ ملک میں ہرسال جتنے افراد دشمن کے حملوں میں مارے جاتے ہیں،اس سے زیادہ پاکستانی حالت امن میں سڑکوں پر مارے جاتے ہیں۔تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی اور سڑکوں پر بڑھتے ہوئے رش کے باعث سڑک ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید پورے ملک میں کوئی ایک بھی ایسا ڈرائیور نہیں پایا جاتا جس کو قانونی طور پر ڈرائیونگ کرنے سے روک دیا گیا ہو حالانکہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بعض خطرناک ڈرائیوروں کو بڑے حادثات کے بعد ڈرائیونگ سے روک دیتے ہیں اور اُن کے لائسنس منسوخ کرکے ضبط کرلیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ڈارئیونگ لائسنس حاصل کرنا آسان ترین کام ہے لیکن خطرناک حادثات کے بعد بھی کسی ڈرائیور کا لائسنس منسوخ کرنے کے لیے ایک لمبے پراسس کی ضرورت ہے ۔

ایک سروے کے مطابق ستر فیصد کل وقتی یا جزوقتی ڈرائیور لائسنس حاصل کرنے کے عمل سے نہیں گزرنا چاہتے اور بغیر ٹیسٹ پاس کیے ایجنٹوں کو پیسے دے کر لائسنس حاصل کر لیتے ہیں۔

کوئٹہ میں باراتیوں کی گاڑی کو حادثہ، 8افراد جاں بحق،25 زخمی

ماہرین کا خیال ہے کہ حادثات کے بعد قانونی کارروائی کے لیے جن قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے، وہ حادثات کی سنگین نوعیت کے مطابق نہیں اور عام طور پر حادثے کے ذمہ داروں کو ہی فائدہ پہنچاتے ہیں، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سڑک حادثات کی ایک بہت اہم وجہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی فٹنس اور سڑک پر چلنے، سواریاں یا وزن ڈھونے کی اہلیت ہے۔عام طور پر گاڑیوں کی فٹنس کا سرٹیفیکیٹ سرکاری طور پر جاری کیا جاتا ہے لیکن اس پر اعتبار کرنا خاصا مشکل ہے اور زیادہ تر گاڑی مالکان اپنی گاڑیوں کی فٹنس کی فکر نہیں کرتے اور رشوت دے کر اس قسم کے سرٹیفیکٹ حاصل کر لیے جاتے ہیں۔

پنجاب میں سڑک حادثات کی تعداد بڑھ رہی ہے اور دستیاب معلومات اور اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں پنجاب کی شاہراہوں پر تیز رفتار گاڑیوں نے کتنے انسانوں کی جان لے لی۔ سندھ کی بڑی شاہراہوں اور شہروں کو ملانے والی رابطہ سڑکوں کے ساتھ ساتھ شہروں کے اندر پائی جانے والی بے ہنگم ٹریفک بھی سینکڑوں افراد کو موت کی نیند سلا دیتی ہے۔ کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی کل ٹریفک کا70 فیصد موٹرسائیکل سواروں پر مشتمل ہے،جن میں سے بہت کم لوگ ہی ہیلمٹ استعمال کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں صورتحال باقی صوبوں سے کوئی خاص مختلف نہیں یہاں بھی ہر سال ہزاروں افراد سڑک حادثات میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کم آبادی کی وجہ سے دوسرے صوبوں کی نسبت حادثات کی تعداد کم ہے لیکن بڑی شاہراہوں پر حادثات کا گراف خاصا اونچا ہے۔

بہتر سڑکوں کے حامل شہر اسلام آباد میں حادثات کی بڑی وجہ تیز رفتاری

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی سارا سال ٹریفک حادثات کی زد میں رہتا ہے ، گزشتہ برسوں میں اسلام آباد کی سڑکوں پر وفاقی وزیر سمیت کئی اہم شخصیات اور اُن کے اہل خانہ سڑک حادثات میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔  بہتر سڑکوں کے حامل شہر اسلام آباد میں سڑک حادثات کی سب سے بڑی وجہ تیز رفتاری ہے۔

اکثر ممالک میں مقامی حکومتیں اور خاص طور پر مقامی ذرائع ابلاغ، ایف ایم ریڈیو ز ٹریفک حادثات  سے بچاو کے لیے سفر کرنے والوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں حادثے اطلاع کے بعد یہ تمام ادارے چاروناچار حرکت میں آتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ہلاک شدگان اور زخمیوں کی گنتی کے بعد اپنی ذمہ داری کو پورا سمجھ کراپنی راہ لے لیتے ہیں۔

مہلک حادثات میں جاں بحق ہوانے والے افراد اور اُن کے خاندانوں کی کہانیاں بہت المناک ہیں۔سب سے زیادہ اذیت ناک یہ تصور ہے کہ اِن حادثات کے ذمہ داران کو کبھی قرار واقعی سزا نہیں ملتی۔  تعلیمی نصاب میں ٹریفک کے اصولوں کے بارے میں ابتدائی معلومات شامل کرنے ٹریفک قوانین اور روڈ سینس سے بڑی حد تک آگاہی ہو سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں