6

ڈیل کی خبریں، افواہیں اور حقیقت

آج کل تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مبینہ ڈیل کی خبریں بہت گرم ہیں۔ ویسے تو یہ خبریں خود حکومت نے ہی پھیلائی ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سب سے پہلے اس مبینہ ڈیل کی بات کی‘ جس کے بعد سب شروع ہو گئے۔

بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کی ضمانتوں کو اس مبینہ ڈیل کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ضمانتیں ڈیل کا اشارہ دے رہی ہیں۔ نرمی ہو رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا رویہ بھی نرم ہو رہا ہے اور جواب میں تحریک انصاف کے رویہ میں بھی نرمی نظر آرہی ہے۔

ڈیل کی انھی خبروں کو مزید تقویت تب ملی جب دو ہفتوں کی پابندی کے بعد بانی تحریک انصاف کی مقدمات کی سماعت کے دوران صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ صحافیوں کو بھی ایک تبدیل شدہ خان ہی نظر آئے۔ سب کو توقع تھی کہ ملاقاتوں پر پابندی اور 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد بانی تحریک انصاف جب پہلی دفعہ صحافیوں سے ملیں گے تو ان کا رویہ بہت جارحانہ ہوگا۔ پھر یہ خبریں بھی آئیں کہ بانی تحریک انصاف کے سیل کی بجلی بند رکھی گئی۔ انھیں ایکسرسائز کے لیے مشین بھی نہیں دی گئی۔

ملاقاتوں پر پابندی کے دوران کھانا بھی اچھا نہیں دیا گیا۔ اس لیے سب کو توقع تھی کہ جونہی انھیں موقع ملے گا وہ اسٹبلشمنٹ پر شدید تنقید کریں گے۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ بانی تحریک انصا ف کو جب بھی موقع ملا ہے انھوں نے اسٹبلشمنٹ پر شدید تنقید کی ہے۔ افسران کے نام لے کر ان پر تنقید کی ہے۔ بلکہ ان کے نام رکھ کر انھیں پکارتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار وہ نسبتا خاموش نظر آئے۔ ان کی گفتگو میں وہ جارحا نہ پن نہیں تھا۔ جس کی سب کو توقع تھی۔ پھر بانی تحریک انصاف کے جو ٹوئٹ سامنے آئے وہ بھی ماضی کی نسبت نرم تھے۔ ان میں بھی کسی کا نام نہیں تھا۔

یوں ڈیل کا ماحول بن گیا۔ بشریٰ بی بی کے پشاور جانے سے بھی ڈیل کی خبروں کو تقویت ملی۔ ایسے میں تحریک انصا ف نے خود یہ ماحول بنایا کہ اگر ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ نہ صرف بانی تحریک انصاف کو جیل سے رہا کروائیں گے بلکہ تحریک انصاف کو بھی اقتدار میں لائیں گے۔ٹرمپ آئے گا تو ہم آئیں گے کا نعرہ آجکل تحریک انصاف میں مقبول ہے۔ اس سے پہلے امریکی ایوان نمایندگان میں بانی تحریک انصاف کے لیے قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔

حال ہی میں ساٹھ سے زائد کانگریس کے ممبران نے امریکی صدر کو خط لکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ نہ تو قرارداد اور نہ ہی خط کے وہ اثرات سامنے آئے ہیں، جن کی توقع تھی۔ امریکی حکومت نے نہ تو خط اور نہ ہی قرارداد کو پاکستان پر دباؤ کے لیے استعمال کیا اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت دی۔ اس لیے ایک تاثر ملا کہ تحریک انصاف کی یہ دونوں کاوشیں ناکام ہو گئی ہیں۔ لیکن ان دونوں ناکامیوں کے بعد اب ٹرمپ سے امید باندھ لی گئی ہے۔

اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے رویہ میں نرمی اسی وجہ سے ہے۔ بانی تحریک انصاف کے رویہ میں نرمی بھی اسی وجہ سے ہے۔ ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر کوئی خاص احتجاج نہیں کیا ہے۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو اس ترمیم کو قبول ہی کر لیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار کو بھی مفاہمت کی نظر سے ہی دیکھ رہے ہیں۔ورنہ پہلے تحریک انصاف نے پارلیمانی کمیشن میں بیٹھنے سے انکارکر دیا تھا۔ اور اب جیوڈیشل کمیشن میں بیٹھنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے ۔ پہلے ڈیل نہیں تھی، اب ڈیل ہے تو تعاون بھی کیا جا رہا ہے۔

 اب تعاون کے اشارے ہیں بھی اور نہیں بھی۔ تحریک انصاف تو پہلے دن سے اسٹبلشمنٹ سے بات کرنے کی کوشش رہی ہے۔ وہ تو برملا کہتے رہے ہیں کہ بات صرف راولپنڈی سے کریں گے۔

کیا جواب میں کہا جاتا رہا کہ ہم کوئی بات نہیں کریں گے۔ اس لیے یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر بات چیت ہو رہی ہے تو کیا اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے؟کیا وہ بھی بات کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں؟ کیونکہ یہ بات چیت حکومت تو نہیں کر رہی۔ یہ ڈیل ہے، مفاہمت ہے، یا کچھ بھی ہے سیاسی حکومت اور تحریک انصا ف کے درمیان تو نہیں ہو رہا۔ کہیں نہ کہیں کچھ تو ہو رہا ہے۔ کس شکل میں‘ کیسے اورکس سطح پر ۔ یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کو یہ قائل کیا جا رہا ہے کہ ان کی بہتری اسی میں ہے کہ نظام کو چلنے دیں۔ 26ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یقینا تحریک انصاف کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ ان کو جیوڈیشل ایکٹوزم کی جو امیدیں تھیں وہ ٹوٹ گئی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکے۔ اس لیے پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے حوصلے تو پست ہوئے ہیں۔ اب نظام کے گرنے کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ خود تحریک انصاف بھی مانتی ہے کہ 26آئینی ترمیم کی منظوری سے نظام مضبوط ہو گیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان رابطے پہلے بھی موجود تھے اور اب بھی موجو دہیں۔ بات چیت پہلے بھی ہو رہی تھی۔ اب بھی ہو رہی ہے۔ پہلے تحریک انصاف کو جو امیدیں تھی ان کے دم توڑنے سے اسٹبلشمنت مضبوط ہو گئی ہے۔ اس لیے اب بات چیت میں ان کی شرائط مانی جا رہی ہیں۔ جو ماحول کو بدلتا دکھائی دے رہی ہیں۔

یہ بات چیت نہ پہلے حکومت کے خلاف تھی اور نہ ہی اب حکومت کے خلاف ہے۔ پہلے بھی تحریک انصا ف کو یہی سمجھایاجا رہا تھا کہ نظام کو چلنے دیں۔ احتجاج کی بات چھوڑیں پارلیمان میں کردار ادا کریں۔ سڑکوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اب بھی یہی سمجھایا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب بات تحریک انصاف کی سمجھ میں آگئی ہے۔

  تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے رابطے حکومت گرانے کے لیے نہیں بلکہ حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے ہیں۔ ماضی میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے رابطے ہوتے تھے۔ اب سیاسی استحکام لانے کے لیے رابطے ہو رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ابھی بانی تحریک انصا ف کو ان کی جماعت نے جو بھی کہہ کر چپ کروایا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے بانی کو فی الحال کوئی ریلیف نہیں ملنے لگا۔ یہی ڈیل ہے۔ ورنہ کچھ بھی نہیں۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں