7

کراچی پیاسا رہے گا – ایکسپریس اردو

عقیل صدیقی ادیب اور صحافی ہیں۔ متوسط طبقے کی آبادی پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 میں رہتے ہیں، ان کے گھر پر پانی نہیں آتا، وہ واٹر کارپوریشن کے دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے تھک گئے ہیں۔ عقیل صدیقی نے کسی دانا شخص کے مشورے پر واٹر کارپوریشن کی Online سروس پر ای میل کی۔ انھیں بتایا گیا کہ 10دن بعد ٹینکر آئے گا مگر 10 دن بعد بھی ٹینکر نہیں آیا۔ وہ 900 روپے خرچ کر کے ہائیڈرینٹ گئے۔

انھیں یقین دلایا گیا کہ ٹینکر آنے والا ہے مگر ٹینکر نہیں آیا۔ اچانک دن کے کسی وقت ان کے بیٹے کے موبائل کی گھنٹی بجی، ان کے صاحبزادے اس وقت موبائل سے دور تھے ، یوں فوری طور پر وہ یہ کال اٹینڈ نہ کرسکے مگر جب 5منٹ بعد انھوں نے اس نمبر پر دوبارہ ٹیلی فون کیا تو انھیں یہ بتایا گیا کہ ان کا آرڈر منسوخ کردیا گیا اور اب 15دن بعد ان کا نمبر آئے گا۔ یہ عقیل صدیقی کی کہانی ہی نہیں بلکہ شہر کے ہر دوسرے شخص کی یہی کہانی ہے۔

کراچی پیاسا ہے، ہر دوسرے دن یہ خبر ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہے کہ ڈملوٹی میں بجلی کے بریک ڈاؤن کی بناء پر پانی فراہمی معطل رہے گی یا یہ خبر آتی ہے کہ کسی خاص علاقے میں پانی کی فراہمی معطل رہے گی۔ گزشتہ ہفتے واٹر کارپوریشن کے افسران کو خیال آیا کہ جمشید ٹاؤن کے مختلف علاقوں پی سی ایچ ایس، مسلم آباد اور ملحقہ علاقوں کو پانی کی فراہمی کی پائپ لائن سے وال تبدیل کر رہے ہیں، جس کی بناء پر ان علاقوں میں ایک ہفتے تک پانی کی فراہمی بند رہی۔ جمشید ٹاؤن میں متوسط طبقے کی بھی آبادیاں ہیں اور نچلے متوسط طبقے کی بھی۔ پھر کچی آبادیاں ہیں اور نچلے متوسط طبقے کی اور پھر کچی آبادیاں ہیں۔

متوسط طبقہ کے رہائشی علاقوں میں مکینوں کو مہنگے داموں ٹینکروں کا پانی خریدنا پڑا۔ کچھ علاقوں میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زمین میں بورنگ کی ہوئی ہے۔ یہ پانی قطعی طور پر پینے کے قابل نہیں ہے مگر لوگوں کو بورنگ کا پانی استعمال کرنا پڑا۔ جمشید ٹاؤن میں پانی کی بندش کا ایک محفل میں ذکر ہوا تو طویل دورانیہ تک بلدیاتی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی نے کہا کہ ان کے علاقے میں تو ہفتہ میں صرف ایک دو دن پانی لائن میں پانی آتا ہے۔ پھر اس محفل میں موجود دیگر شرکاء نے بھی یہ صورتحال بیان کی۔

ایک صاحب نے کہا کہ ان کے علاقے میں تو مہینوں پائپ لائن سے پانی نہیں آتا۔ کراچی شہر 1795میں آباد ہوا جب انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کیا۔ ڈملوٹی میں گہرے کنوے کھودے گئے، سول انجنیئر پروفیسر سعید عثمانی اپنی بچی کچی یاد داشتوں کو جمع کرکے بتاتے ہیں کہ پہلے ڈملوٹی سے ایک نہر کھودی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد پائپ لائنوں سے نہر کو فراہمی شروع ہوگئی۔ 70 کی دہائی میں حب ڈیم کی تعمیر مکمل ہوئی تو پانی کی فراہمی کا ایک نیا وسیلہ میسر آگیا۔

حب ڈیم سے کراچی ویسٹ کے وسیع علاقے میں پانی فراہم ہونے لگا۔ کراچی کی ترقی کی تحریک کے فعال کارکن زاہد فاروق کی تحقیق کے مطابق حب ڈیم سے پانی کی سپلائی 100 ایم جی روزانہ ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حب ڈیم کو پانی فراہم کرنے والی نہر پر متعلقے محکمے اور بلوچستان کی حکومت کی توجہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ حب ڈیم کی پانی فراہم کرنے والی نہر مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اگر بلوچستان میں ہر سال بارش نہ ہو یا کم ہو تو حب ڈیم میں پانی کی سطح کم ہوجاتی ہے۔

حکومت سندھ سے اب حب ڈیم سے زیادہ پانی کے لیے ایک نئی نہر تعمیر کرنے پر غور کررہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں کراچی میں پانی کی فراہمی کے جدید نظام کے قیام میں دلچسپی نہیں لی مگر واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تو قائم ہوا ۔ واٹر بورڈ کی کارکردگی مایوس کن رہی، یوں 1985 کے بعد شہر کراچی میں پانی کی قلت بڑھنے لگی۔ کراچی میں جن صنعتوں کو وافر مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے، انھوں نے ایک آسان نتیجہ تلاش کیا اور ہیوی پمپس کے ذریعے زیرِ زمین پانی کو کھینچنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں زیرِ زمین پانی کی سطح گرنے لگی۔

کچھ ماہرین نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ پانی کی سطح کم ہونے سے زمین کھوکھلی ہورہی ہے، اگر زلزلہ کے شدید جھٹکے آئے تو عمارتیں زمین بوس ہوسکتی ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت نے کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے K-IV منصوبہ پر کام شروع ہوا۔ اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ 270 ملین ڈالر تھا۔ اس منصوبے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس سے 650 ملین گیلن پانی کراچی کو ملے گا۔

 2008میں پیپلز پارٹی کی سندھ کی حکومت قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کی جماعت اچھی طرزِ حکومت کو اہمیت نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ کسی صورت مکمل نہیں ہو پا رہا ہے اور اس منصوبے پر آنے والی لاگت بڑھتی جارہی ہے۔ اب یہ منصوبہ واپڈا کے سپرد ہے مگر معاملہ صرف K-IV منصوبہ کا نہیں ہے ۔ الیکٹرک انجنیئرنگ کے ماہرین کو اس وقت حیرت ہوتی ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی بناء پر پائپ لائن پریشر برداشت نہیں کرسکتی۔ ان انجنیئروں کا کہنا ہے کہ اب تو انفارمیشن ٹیکنالوجی نے الیکٹرونکس کے شعبے میں بھی انقلاب برپا کردیا ہے۔

اب بجلی کی سپلائی بند ہونے کے بعد آٹومیٹک سسٹم کام کرنے لگتے ہیں اور بجلی کی فراہمی متاثر نہیں ہوتی۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی اور سیوریج کی لائن بوسیدہ ہوگئی ہے۔ یوں لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ سے پانی کے ضایع ہونے کی مقدار بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں سیوریج کا پانی، پانی کی لائنوں میں شامل ہوجاتا ہے جس کی بناء پر پیٹ اور جلدی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، اگر واٹر بورڈ کے دفاتر سے رجوع کیا جائے تو وہ لائن کی تبدیلی کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ تجویز پیش کرتے کہ فنڈ ختم ہوگیا ہے، آپ خود یہ کام کرا لیں۔ یکم جولائی سے نیا مالیاتی سال شروع ہوتا ہے اور اگست میں فنڈز نایاب ہوجاتے ہیں۔

اب تو واٹر کارپوریشن کے ملازمین کھلے عام یہ بات کہتے ہیں کہ فنڈز کا بیشتر حکومت کی اعلیٰ شخصیتوں اور اعلیٰ افسروں کو نذرانہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگرچہ شہر میں 19کے قریب ٹاؤن ہیں اور ہر ٹاؤن میں یونین کونسل منتخب نمایندوں پر مشتمل ہے، مگر پانی کی تقسیم کے معاملہ میں یونین کونسل کے چیئرمین اور کونسلروں کا صرف ایک کردار ہے کہ جب ان کے ووٹر ان منتخب اراکین کے گھروں کے دروازوں پر جاتے ہیں تو یہ منتخب اراکین احتجاج کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے بڑی مافیاز ہیں جو پانی کی فروخت سے روزانہ لاکھوں روپے کماتی ہیں۔

ان مافیاز میں سیاسی جماعتیں اور کرائم مافیاز وغیرہ شامل ہیں، سب ساتھ ہیں۔ کراچی کی ترقی کی تحریک کے فعال کارکن زاہد فاروق کا کہنا ہے کہ کراچی میں مسئلے کے پانی کے حل کے لیے بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ مقامی کمیونٹیز کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بل کی ریکوری کے لیے پانی کی سپلائی کو بہتر بنانے کے لیے۔ کسی بھی سروس مہیا کرنے والے ادارے میں کمیونٹی کی شراکت ہوتی ہے تو کمیونٹی ساری صورتحال کو بہتر طور پر جانتی ہے اور اس کی بہتری کے لیے اپنے منتخب نمایندوں کو وہ ہمیشہ سپورٹ مہیا کرتی ہے۔

واٹر بورڈ کے لیے اب ضروری ہے کہ حب ڈیم سے جو پانی کی نئی نہر بنانے کے لیے کام شروع ہوا ہے اس کو وقت پر پایا تکمیل تک پہنچایا جائے اور جو پرانی نہر ہے، پانی پرانی سپلائی کا نظام ہے اس کو بہتر بنایا جائے نئی مشینری کی جہاں ضرورت ہے وہ لگائی جائے۔

بہتر نگرانی کر کے لیکیجز رساؤ کا خاتمہ کیا جائے اور پانی کی چوری کے عمل کو روک کر کراچی کے لیے اسی وسائل کو بہتر بنا کے کم از کم ڈیڑھ سو ایم جی ڈی گیلن پانی کی سپلائی کو لائنوں کے ذریعے عوام کو مہیا کیا جا سکتا ہے، مگر سندھ حکومت کے پاس کراچی کے شہریوں کی داد رسی کے لیے وقت نہیں ہے، یوں پوری ذمے داری کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی اگلے کئی برسوں تک پیاسا رہے گا۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں