3

ہمارے دریا مر رہے ہیں

آج انسان کو صاف ہوا، پانی اور ماحول کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان میں صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ لوگوں کو نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ ہی ہوا صاف ہے۔ شہریوں کے لیے زندگی آئے دن مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی اب جتنی مشکل ہے پہلے کبھی نہیں تھی اور دن بہ دن یہ مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ہوا، پانی اور ماحول کا صاف ہونا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر یہ حق پاکستان کے عوام کو حاصل نہیں ہے اور دور دور تک بہتری کے کوئی حالات نظر نہیں آتے۔

ایسا بہت کم ہوگا کہ جب طاقتور لوگوںنے نفع کے لیے قدرتی وسائل کو اس بے دردی سے استعمال کیا ہو جیسے آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں کیا جا رہا ہے۔ پاکستان، جسے کبھی دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا تھا، اب خشک ہوتا جا رہا ہے۔ وہ دریا، جن کی سرسبز لہریں ہماری زمینوں کو زرخیزی بخشتی تھیں، آج سرمایہ داری کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ نئی منڈیوں کی تلاش، ترقی کے نام پر کارخانوں اور منصوبوں کا قیام اور بے دریغ قدرتی وسائل کا استعمال، ہمارے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔

آج پاکستان کے دیہات اور چھوٹے شہر اسی سماجی نظام کے زیر ِ عتاب ہیں۔ کسان، جو اپنے باپ دادا کے زمانے سے دریاؤں کے کنارے آباد تھے، اب بے زمین ہو رہے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں، جو اپنی مصنوعات اور منافع بڑھانے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں، دراصل ہماری زمین کو آلودگی کا قبرستان بنا رہی ہیں۔ ہمارے دریا اب زہر آلود ہو چکے ہیں، ان کا پانی کڑوا اور گدلا ہو چکا ہے، اور ان میں وہ جاندار، جو کبھی ہمارے آبی وسائل کی علامت تھے، آج دم توڑ چکے ہیں۔

پاکستان میں مال اور منافع کا حصول سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی مقصد ہے، اور یہ مقصد پورا کرنے کے لیے قدرتی وسائل کی بلی دی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقے، جہاں کبھی دریا بہتے تھے، آج صحرا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ صحرا ویسے تو کسی قدرتی عمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسان کی خود غرضی اور نفع کمانے کی ہوس کا مظہر ہے۔ عالمی کارپوریشنز اپنے تجارتی منصوبوں کے تحت دریا کے پانی کو اس حد تک استعمال کر چکی ہیں کہ زمین بنجر اور سوکھ گئی ہے۔ جب دریا مردہ ہو جاتے ہیں تو زمین بھی مردہ ہو جاتی ہے۔

ایسی صورتحال میں مقامی آبادی اور کسانوں کے لیے زندگی گزارنا ایک مستقل چیلنج بن چکا ہے۔ نئے منصوبوں، ڈیموں اور بند کے نام پر دریاؤں کا بہاؤ روک کر سرزمین کی ساخت کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ سندھ کے لوگ، جو کبھی دریا سندھ کے پانی سے زندگی کی راحت لیتے تھے، اب پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ مگر ان بین الاقوامی کارپوریشنز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ان کسانوں اور دیہات کے لوگوں کے مسائل سے کیا سروکار! ان کا مقصد تو بس منافع حاصل کرنا ہے، چاہے اس کے لیے زمین کی کوکھ کو بنجر کر دینا پڑے۔

سرمایہ داری کے اس سفاک نظام نے قدرتی وسائل کو تجارتی اشیاء بنا دیا ہے۔ زمین، پانی، جنگلات اور حیوانات سب کچھ بکتی ہوئی چیزیں ہیں۔ کبھی ان وسائل کو سماجی بہبود کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، مگر اب ان کی حیثیت فقط نفع کمانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ہم نے اپنے دریاؤں کو بیچ دیا ہے، اپنے جنگلات کو کاٹ دیا ہے، اپنی زمین کو زہر آلود کر دیا ہے اور اپنے جانوروں کو ختم کر دیا ہے۔ آج کی سرمایہ داری کا نعرہ ہے نفع کماؤ، چاہے جو کچھ بھی برباد کر دو۔

 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ ناگزیر ہے؟ کیا پاکستان جیسے ممالک کے لیے ترقی کے صرف یہی راستے باقی ہیں؟ کیا کوئی اور راستہ نہیں کہ ہم اپنے ماحول کو برباد کیے بغیر ترقی کر سکیں؟ ترقی کی جو قیمت آج ہم چکا رہے ہیں، وہ کل ہماری نسلوں کو تباہی کی صورت میں بھگتنی ہوگی۔ آج کے بچے اس زمین کے حقیقی وارث ہیں، مگر کیا ہم انھیں ایک صحرا، زہریلا پانی اور بنجر زمین دے کر جائیں گے؟

حکومتیں اور کارپوریٹ سیکٹر ہمیشہ اپنے منصوبوں کو ترقی کا نام دیتے ہیں۔ وہ ہمیں یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان منصوبوں سے روزگار کے مواقعے بڑھیں گے، ملکی معیشت میں بہتری آئے گی، اور عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ترقی محض ایک دھوکا ہے۔ جب دریا مردہ ہو جاتے ہیں، تو زندگی کی اصل روح بھی مر جاتی ہے۔ ہمارے گاؤں کے کسان، جن کی زندگی پانی سے جڑی ہوتی ہے، وہ جب اپنی زمین کو بیکار ہوتے دیکھتے ہیں، تو ان کے چہرے پر ایک خوف اور بے بسی کی جھلک نظر آتی ہے۔

 سندھ کا دریا، جو کبھی اس زمین کی زرخیزی کا ضامن تھا، آج زہر کا منبع بن چکا ہے۔ یہ دریا اب ہمیں زندگی نہیں دیتا، بلکہ ہمارے جسموں میں زہر اتار رہا ہے۔ حکومتیں بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کرتی ہیں، ڈیم اور بیراج بناتی ہیں، مگر ان کے نتیجے میں جو نقصان ہوتا ہے، اس کی قیمت کون چکائے گا؟ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ترقی واقعی کس کے فائدے کے لیے ہے؟

آج ہمیں ماحولیات کی جنگ لڑنی ہے، اور یہ جنگ اس سرمایہ داری کے خلاف ہے جس نے ہمارے دریاؤں، ہماری زمینوں اور ہمارے جنگلات کو نفع کی ہوس میں برباد کر دیا ہے۔ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو قدرتی وسائل کو محفوظ رکھے، انھیں اپنی اصل شکل میں برقرار رکھے اور ہمارے مستقبل کو بچانے کے لیے ان کی حفاظت کرے۔ ہمیں اپنی زمین کو، اپنے دریاؤں کو، اپنے جنگلات کو بچانا ہے، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک بہتر اور صاف ستھری دنیا میں سانس لے سکیں۔

 یہ جنگ آسان نہیں ہوگی۔ ہمیں حکومتوں، کارپوریٹ سیکٹر اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی تشکیل کرنی ہوگی جو انسان اور زمین کے درمیان توازن برقرار رکھ سکے۔ ہماری زمین، ہمارے دریا، ہمارے جنگلات ہمارا اثاثہ ہیں اور انھیں نفع کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے، ہمیں انھیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنا چاہیے۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں