[ad_1]
خیبر پختونخوا کا ضلع سوات آبادی کے لحاظ سے صوبے کا پشاور اور مردان کے بعد تیسرا بڑا ضلع ہے اس کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق 26 لاکھ 87 ہزار 384 ہے، ضلع سوات میں 7 تحصیلیں ہیں جس میں بحرین، خوازہ خیلہ، چارباغ، بابوزئی، بریکوٹ، کبل اور مٹہ شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ضلع سوات میں 3 قومی اور 8 صوبائی اسمبلی کے لئے نشستیں ہے جو کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 2 ، این اے 3 اور این اے 4 پر شامل ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 3، 4، 5 ، 6 ، 7 ، 8، 9 اور 10 شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق خواتین ووٹرز کے اعداد وشمار کیا ہے؟
معلومات تک رسائی ایکٹ کے تحت لئے گئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ضلع سوات کے 3 قومی اور 8 صوبائی اسمبلی کے نشستوں کے لئے ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 14 لاکھ 39 ہزار 430 ہے جس میں خواتین رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 6لاکھ 52 ہزار 318 ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ضلع سوات میں ٹوٹل 1003 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں جس میں مردوں کے لئے 248، خواتین کے لئے 235 اور مشترکہ 520 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں اسی طرح ٹوٹل 3337 پولنگ بوتھ بنائے جائیں گے جبکہ اس میں مردوں کے لئے 1786 اور خواتین کے لئے 1551پولنگ بوتھ بنائے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن ضلع سوات آفس کےمطابق جن افراد نے ووٹ کی رجسٹریشن کی ہے وہ ہمارے پاس لسٹوں میں شامل ہیں۔ اکثر مقامی لوگوں کی غفلت یا آگاہی نہ ہونے یا علاقائی رواج کے وجہ سے لوگ خواتین کی ووٹ کے رجسٹریشن سے کتراتے ہیں۔
سال 2018 کے عام انتخابات میں خواتین کا ٹرن آوٹ کتنا رہا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان سوات آفس سے معلومات کی رسائی ایکٹ کے تحت لی گئی معلومات کے مطابق سال 2018 کے عام انتخابات میں سوات کے 3 قومی اور 8 صوبائی اسمبلی کے لئے ایک بھی خاتون نے کاغذات جمع نہیں کئےتھے جبکہ تمام امیدواران مرد تھے۔
قومی اسمبلی کی نشستوں میں خواتین کا ٹرن آوٹ
سال 2018 کے عام انتخابات میں سوات کے قومی اسمبلی کی مجموعی نتائج کو اگر دیکھا جائے تو 2018 کے عام انتخابات میں سوات کے تینوں قومی اسمبلی کی نشتوں کے لئے جو ووٹ پول کیا گیا اس میں 22 عشاریہ 36 فیصد خواتین اور 77عشاریہ 64 فیصد مردوں کا ٹرن آوٹ رہا ہے۔
صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں خواتین کا ٹرن آوٹ
سال 2018 کے انتخابات میں 4 لاکھ 87 ہزار 571 ووٹ پول کئے گئے جس میں خواتین کے 1 لاکھ 9ہزار 675 ووٹ اور 3 لاکھ 77 ہزار 896 مردوں نے ووٹ پول کیا۔ ٹوٹل ٹرن آوٹ 40 عشاریہ 87 فیصد رہا جبکہ پول کئے گئے ووٹوں میں خواتین کا ٹرن آوٹ 22 عشاریہ 49 فیصد اور مردوں کا 77 عشاریہ 51 فیصد رہا ۔
ماضی میں کوئی بھی خاتون جنرل نشست پر الیکشن نہیں لڑی
ضلع سوات میں الیکشن کمیشن کے مطابق اب تک کوئی بھی خاتون عام انتخابات میں کوئی بھی جنرل نشست پر الیکشن کے لئے کاغذات جمع نہیں کئے جبکہ ماضی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی اور صوبائی اسمبلی پر مختلف خواتین منتخب ہوئی ہیں جس میں 2002 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے جمیلہ احمد ممبر قومی اسمبلی، 2013 میں عائشہ سید اور مسرت احمد زیب خواتین کے مخصوص نشست پر ممبر قومی اسمبلی بن گئی تھے جبکہ 2018 میں نادیہ شیر خان ممبر صوبائی اسمبلی کے لئے خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئی تھیں۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سمرین حکیم ایڈوکیٹ نے الیکشن میں خواتین کے ٹرن آوٹ کے حوالے سے کہا کہ ہمارے خواتین کو الیکشن کے حوالے سے اگاہی دینے کی ضرورت ہے ہمارے خواتین کو ووٹ کے پرچی کے بارے میں معلومات بھی نہیں جبکہ خواتین کی نشستوں پر انہوں نے کہا کہ آبادی میں خواتین زیادہ ہے مگر ان کی نشستیں انتہائی کم ہے اس کو زیادہ کرنا چاہئے۔
خاتون سیاسی رہنما و سابق ضلعی کونسلرانبیاء خان نے خواتین کو جنرل نشست پر ٹکٹ کے حوالے سے کہا کہ ہم بحیثیت جنرل نشست پر الیکشن لڑنے کا خواہش رکھتی ہے مگر جب ہم پارٹی کو ٹکٹ کے لئے درخواست دیتے ہیں تو پارٹی کے قائدین ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اپ مخصوص نشست کے لئے صبر کریں اپ کو وہ مخصوص سیٹ دینگے۔
سوات سے تعلق رکھنے والا شاہد علی نے خواتین کے جنرل نسشت پر لڑنے کے حوالے سے کہا کہ خواتین کو بھی جنرل الیکشن کے سیٹ پر لڑنا چاہئےسیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ خواتین اور مرد کے لئے یکساں مواقع فراہم کریں ۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جنرل نشست پر خواتین کے نہ انے سے خواتین کے مسائل حل نہیں ہورہی بلکہ مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ انہوں نے واضح کردیا کہ خواتین اگر جنرل نشست پر اجائے تو وہ جب اسمبلی میں پہنچ کر خواتین کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرینگے۔
ضلع سوات میں خواتین کو جنرل نشست نہ دینے کے سوال پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما فضل الرحمن نے کہا کہ ہم تو خواتین کی حقوق کے بات کرتے ہیں، مخصوص سیٹس پر ہماری خواتین آتی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہم جنرل سیٹس پر خواتین کو سیٹس دیں مگر اس میں ہماری علاقائی رواج کے وجہ سے خواتین خود دلچسپی نہیں لے رہی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما ڈاکٹر امجد نے کہا کہ پیپلز پارٹی خواتین کے حقوق کے لئے بھرپور کام کررہی ہے اور پاکستان میں پیپلز پارٹی ہی ہے جو خواتین کے لئے آواز اٹھا رہی ہے انہوں نے کہا کہ ضلع سوات میں خواتین اگر پیپلز پارٹی کے جنرل سیٹ پر الیکشن لڑنا چاہتی ہے تو ہم اس کے بھرپور حمایت کرینگے۔
مینگورہ شہر کے رہائشی گوہر خان نے کہا کہ اگر یہاں سے کوئی خاتون الیکشن کے لئے کھڑی ہوجائی تو میں خود ووٹ دوں گا جبکہ اپنے خاندان اور دوستوں کو بھی خاتون کو ووٹ دینے کا اپیل کروں گا۔
[ad_2]