[ad_1]
بھارتی طلبہ نے آکسفورڈ یونین کے خلاف احتجاج کیا ہے کیونکہ اس نے ’’آزاد ریاست کشمیر‘‘ کے موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا، جو ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور طویل عرصے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کا باعث رہا ہے۔
ماہرین اور مورخین کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے رویے میں ہندوتوا نظریے کا عکس ہے، جو مودی حکومت کی طرف سے فروغ دئیے جانے والے بیانیے سے متاثر ہے۔
درحقیقت، بھارتی ریاست میں قوم پرستی اور غیر حقیقی فخر کا غلبہ ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر غیر معقول رویے سامنے آ رہے ہیں، جہاں اکثر احتجاج غلط معلومات اور حقائق کو مسخ کر کے کیے جاتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر، جو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کی باقیات میں سے ایک ہے، 1947 سے برصغیر میں کشیدگی کا باعث رہا ہے، جس کی وجہ سے کئی جنگیں اور مسلسل تنازعے جنم لیتے رہے ہیں۔
کشمیری آزادی کی مسلسل آواز ایک طویل عرصے سے جاری مقامی جدوجہد کا حصہ ہے، جو خطے کے حق خود ارادیت اور سیاسی خودمختاری کے مطالبے پر مبنی ہے۔
بھارتی آئین ایک سیکولر نظام کی ضمانت دیتا ہے، جس میں ریاست اور مذہب کے اختلاط کی ممانعت ہے۔ لیکن موجودہ بھارت اس سیکولر آئیڈیل سے مسلسل دور ہو رہا ہے، جہاں ہندوتوا نظریہ ریاستی اداروں اور سماجی ڈھانچے میں گہرائی سے سرایت کر چکا ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی ایک غیر متزلزل ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں، جس کا مقصد بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنا ہے، جہاں ہندوؤں کو برتری حاصل ہو اور غیر ہندوؤں کو پسماندگی کا سامنا ہویہ نظریہ بھارت کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر واضح طور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
بھارت انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی کرنے والی ریاستوں میں شامل ہو چکا ہے، جہاں اقلیتوں کے حقوق کو کشمیر اور بھارتی سرزمین پر منظم انداز میں پامال کیا جاتا ہے، اور اکثر یہ خلاف ورزیاں بھارتی ریاست کی براہ راست منظوری یا حمایت سے ہوتی ہیں۔
بھارت میں ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت واضح ہو چکی ہے، کیونکہ اس کے سیکولرزم کے نقاب نے گہری دراڑوں کو بے نقاب کر دیا ہے، جو اس کے موجودہ سیاسی اور سماجی نظام کی ساکھ اور قانونی حیثیت کو کمزور کر رہی ہیں۔
بھارتی طلبہ کے اس ناقابل قبول رویے کو اجاگر کرنا اور مناسب انداز میں اس کا مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔
بھارتی ڈائسپورا کے کچھ حصوں میں بڑھتے ہوئے رجحانات کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے، جو اکثر مغربی معاشروں کے اصولوں اور اقدار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
بھارتی طلبہ کا حالیہ احتجاج (جو آکسفورڈ یونین کی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے) اس قسم کے رویے کے خلاف سخت تادیبی اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے، جو دنیا کے ایک ممتاز ترین تعلیمی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے۔
ان کا احتجاج ایک ایسی ثقافت کو فروغ دیتا ہے جو براہ راست آزادی اظہار اور مسائل کے تعمیری مکالمے کے ذریعے حل کے اصولوں کے منافی ہے۔
ایک تعلیمی سرگرمی کے جواب میں بھارتی طلباء کے رویے نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں، اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس قدر محدود سوچ کے ساتھ بھارت کیا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے؟
کشمیر کے مسئلے پر آکسفورڈ یونین کے مباحثے نے بھارت کے بے بنیاد دعوؤں کو چیلنج کیا اور بین الاقوامی برادری کی کشمیر کے تنازعے کے حوالے سے بڑھتی ہوئی آگاہی اور دلچسپی کو اجاگر کیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی برادری مسئلہ کشمیر کو بھارتی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتی، اور بھارت کو بھی حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے اور تاریخی حقائق کو تسلیم کرنا چاہیے۔
[ad_2]