6

مایوس پاکستانی نوجوان – ایکسپریس اردو

پاکستان اور پاکستانیت، اس ملک کے نوجوانوں کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے، اس کا بخوبی اندازہ حالیہ گزرے یومِ آزادی پر اُن کے بجھے ہوئے جوش، روکھے پھیکے جشن، اُداس، مایوس چہروں اور ناراضگی سے بھرپور اندازواطوار سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو زمینی طور پرآزاد ہوئے سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس سرزمین پر بسنے والی قوم ذہنی اور جسمانی اعتبار سے بھی آزاد ہے یا نہیں، اس پر بیشمار ابہام موجود ہیں۔

ہمارا ملک تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے بلکہ اگر ایسا کہا جائے کہ پاکستان اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے تو بالکل غلط نہیں ہوگا، ہماری زرخیز زمین بہت تیزی سے بنجر ہو رہی ہے اور نقصان کی ذمے داری لینے والا کوئی نہیں ہے۔ پاکستان اپنی موجودہ ہنگامی حالت تک کیسے پہنچا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے سوچا جائے تو مسئلہ در مسئلہ، بگاڑ مزید بگاڑ ہی سوالی کو منہ چڑانے لگتا ہے۔ ان حالات میں بہتری کی اُمید اور خوشحالی کی نوید دکھائی دیتی ہے نہ سنائی دیتی ہے بس بے ہنگم شور ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایسے دور میں پاکستانی نوجوان کس طرح اپنے مستقبل کے بارے میں سنہرے خواب سجا سکتا ہے جب اُس کا حال مایوسیوں کا سر چشمہ ہو اور ماضی جدوجہد کی ایک لمبی داستان۔

پچھلے دس سالوں میں تہتر لاکھ پاکستانی نوجوان ایک اچھی زندگی گزارنے کی آرزو میں ملک کو خیرآباد کہہ کر ترقی یافتہ ممالک میں جا بسے ہیں اور لاکھوں مزید اُڑان بھرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ پردیس سدھارنے والے ہونہار پاکستانی نوجوان ملک چھوڑتے ہوئے دکھی تھے نہ واپس لوٹنے کی خواہش اُن کے دل میں موجود ہے۔ یہ جان کر بے حد تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے اس ملک کو اپنی انفرادی ترقی کے راستے میں حائل ایک رکاوٹ سمجھا اور جب اُنھیں موقع میسر آیا اس رکاوٹ سے اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ کیا اتنا آسان تھا اپنی جڑوں کوکاٹنا، پاکستان سے اپنے تعلق کو توڑ دینا؟ یہ سوال جتنا چبھنے والا ہے اس کا جواب بھی اُتنا ہی اذیتناک ہے۔ اس ملک نے اپنی نوجوان نسل کو ایسا کیا عنایت فرمایا ہے کہ وہ بدلے میں اُن سے خیر، دانائی، سمجھوتے اور قربانی کی اُمید رکھے۔

مہنگی معیاری تعلیم، نہایت جتن سے حاصل کی گئی تعلیم کے بعد قابلِ عزت نوکریوں کی کمی، باہنر نوجوانوں کے مقابلے میں اثرورسوخ رکھنے والوں کی اولادوں کو اہمیت دینا، غریب و نادار نوجوانوں کی تعلیم کیلئے اسکالر شپ کا آٹے میں نمک کے برابر دستیاب ہونا۔ انگنت وعدوں کے باوجود تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں سے نہ ہٹنے والی پابندی، حکومت کی تشکیل میں نوجوانوں کی عدم نمایندگی اور ان جیسے لاتعداد مسائل سے گھرا ہوا ہے اس ملک کا نوجوان۔ پاکستانی نوجوان اس ملک کے گمنام ہیروز ہیں جن کی محنت و لگن کو جس نوعیت پر سراہنا چاہیے اُس پرکبھی نہیں سراہا گیا ہے۔ ہر بارگنتی کے چند یوتھ پروگرامزکی محض ہری جھنڈی دکھلائی جاتی ہے جو بعد میں بند فائلوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ہمارا نوجوان ملک کے حکمرانوں سے شدید ناراض ہے اور اپنی اس ناراضگی میں وہ بالکل حق بجانب ہے۔

یہاں پہلے سے موجود نوجوانوں کی پریشانیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا اس پر ایک نیا مسئلہ آ کھڑا ہوا ہے، حالیہ دنوں پورے ملک کا انٹرنیٹ سسٹم کسی نامعلوم خرابی کے باعث ڈاؤن ہوگیا ہے۔ آج کا انسان جس دور میں زندگی جی رہا ہے اُس کو ”انفارمیشن ٹیکنالوجی” کا جہاں کہا جاتا ہے، جدھر انٹرنیٹ کے استعمال سے معجزے رونما ہوتے ہیں۔

آئی، ٹی کی اس کرشماتی دنیا میں پاکستانی نوجوان بھی اپنی انتھک محنت سے کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہا ہے۔ یہ سفر بھی باقی امتحانوں کی مانند اُن کے لیے کافی کٹھن ثابت ہو رہا ہے جس کی وجہ ہمارے ملک میں ہونے والی بجلی کی آنکھ مچولی، تیز انٹرنیٹ کے عوض بھاری ماہانہ رقم، بِنا رکاؤٹ بجلی کے حصول کے لیے مہنگے یو پی ایس، انورٹر اور سولر انرجی کی پلیٹوں کا مجبوراً استعمال۔ اتنے سارے جتن کرنے کے بعد بھی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہو تو پھرکیسے ہمارا نوجوان اس ملک میں اپنے مستقبل کے حوالے سے پُر امید رہ سکتا ہے۔پاکستانی نوجوانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہمارے حکمرانوں کی ترجیح کبھی رہی ہی نہیں ہے، اگر ہوتی تو اب تک انٹرنیٹ کی خرابی کی وجہ کا پتا لگا کر اُسے بحال کیا جاچکا ہوتا۔

انٹرنیٹ کی سست روی اور عدم دستیابی کا مسئلہ صرف ملکی نوجوانوں کی نوکریوں کو متاثر نہیں کر رہا ہے بلکہ ہماری پہلے سے بیٹھی ہوئی معیشت کو مزید اربوں ڈالروں کا نقصان پہنچا رہا ہے ساتھ ملک کی جھکی ہوئی ساکھ کو اور جھکا رہا ہے۔ اس ایک مسئلے کی وجہ سے کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں موجود اپنے دفتروں کو متحدہ ارب امارات منتقل کرنے پر سنجیدگی سے غورکر رہی ہیں۔ دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ کو پہلے ہی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور اب پاکستانی نوجوان بھی خراب انٹرنیٹ کے باعث بروقت اپنا ٹاسک پورا نہ کرنے کی بدولت انٹرنیشنل ڈیجیٹل مارکیٹ میں اپنی نوکری اور نیک نامی دونوں کھو رہے ہیں۔

پاکستان کی سڑکوں پر جرائم کی کھلم کھلا وارداتوں اور عوام کی حفاظت کے نام پر بااختیار افراد کے چند بے ثمر جذباتی اعلانات اور غلط بیانیوں نے بھی ہمارے نوجوانوں کو ملک سے بددل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی چوراہوں پر ملک کا مستقبل کہلانے والا نوجوان ہر روز اوباش لٹیروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں اپنی جان، قیمتی املاک اور محنت سے کمائے پیسے گنواتا ہے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ آخرکس سمت جارہا ہے پاکستان؟ ہمارا خواب تو ایشین ٹائیگر بننا تھا لیکن مسلسل لیے جانے والے غلط فیصلوں نے ہمیں نہ ختم ہونے والے قرضوں میں ڈبو دیا ہے۔ کیا قصور ہے اس ملک کی نوجوان نسل کا کہ پاکستان کے حوالے سے اُن کے شکوؤں کو کبھی سنا ہی نہیں گیا ہے۔ جب انھوں نے اس دھرتی کو چھوڑکر جانا چاہا اُن کو روکا بھی نہیں گیا، کیا وہ ملک پر اتنا بھاری بوجھ بن گئے ہیں جس کو اُتارنا ہی حکمرانوں کو غنیمت لگتا ہے۔



کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں