[ad_1]
ریاست کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کرنے والوں کی شناخت کیلئے جوائنٹ ٹاسک فورس قائم کردی گئی۔ 10 رکنی ٹاسک فورس کی سربراہی چیئرمین مین پی ٹی اے کو سونپی دی گئی۔فورس میں آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندے، جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے۔
وزیراعظم کے احکامات کے تحت جوائنٹ ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ٹاسک فورس میں پی ٹی اے کےعلاوہ دیگر اداروں کے افسران بھی شامل ہیں۔ جوائنٹ ٹاسک فورس حالیہ احتجاج کے پیش نظر جھوٹا پروپیگینڈا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرے گی۔ ٹاسک فورس کو سفارشات مرتب کرکے حکومت کو پیش کرنے کیلئے 10 روز کی مہلت دی گئی ہے۔
فورس میں آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندے، جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو آئی بی ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے۔
اس کے علاوہ جوائنٹ ٹاسک فورس میں جوائنٹ سیکریٹری داخلہ، جوائنٹ سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات، ڈائریکٹر سائبر ونگ ایف آئی اے، ڈائریکٹر آئی ٹی وزارت جوائنٹ ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے۔
جوائنٹ ٹاسک فورس کے لیے ٹی او آرز بھی طے کرلیے گئے، ٹی او آر کے مطابق ٹاسک فورس حالیہ احتجاج کے پیش نظر جھوٹا پروپیگینڈا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرے گی۔
ٹاسک فورس 10 دنوں میں اپنی سفارشات مرتب کرکے حکومت کو پیش کرے گی، ٹاسک فورس بدنیتی پر مبنی مہم چلانے والے ملک کے اندر اور باہر عناصر کی نشاندہی کرے گی۔
اس کے علاوہ بدنیتی پرمبنی مہم چلانے والوں کےخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، ٹاسک فورس پالیسی میں خامیاں پر کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرے گی، ٹاسک فورس جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے والے عناصر کی شناخت کرے گی۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے مستقبل میں شرپسندوں کی اسلام آباد میں آمد کو روکنے، گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت میں انتشار و فساد پھیلانے والوں کی نشاندہی، ان کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں بھی ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
بعد ازاں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے فورسز کے اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے متعدد کارکنوں کے ہلاکتوں کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کردیا تھا۔
[ad_2]