[ad_1]
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں حساس اداروں میں سیاسی حل ختم کرنے کے پر وزارت دفاع سے رپورٹ طلب کرلی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے کی انکوائری میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے شواہد نہیں ملے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاچکا ہے۔ ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں انکوائری بند کردی ہے۔ حساس اداروں میں سیاسی سیل تو فیصلے کے بعد ہی ختم کردیئے گئے تھے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے حساس اداروں میں سیاسی سیل موجود تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اسلم بیگ، اسد درانی اور یونس حبیب نے انیس سو نوے کا الیکشن چوری کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ بڑے بڑے سیاستدانوں پر رقوم لینے کا الزام لگا تھا۔ کیا ان سے رقم ریکور کرلی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے انکوائری میں رقوم تقسیم کے شواہد نہیں ملے۔ درخواست گزار اصغر خان بھی فوت ہوچکے ہیں۔ حساس ادارو ں کا آئین و قانون کے تحت سیاست میں کوئی کردار نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا حساس اداروں کے سربراہان نے سیاسی سیل ختم کرنے کے بیان حلفی دیئے۔ اگر پہلے نہیں لیے تو آج لے لیں۔ ایف آئی اے بھی عدالت کو مطمئن کرے کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ عدالت نے وزارت دفاع سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے 2018 میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کے معاملے پر سابق ایئر چیف اصغر خان کی درخواست پر فیصلے سے متعلق سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔
اصغر خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے اور اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے فوج نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں کو پیسے دیے تھے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سیاست دانوں میں 1990 کے انتخابات میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ 19 اکتوبر 2012 کو سنایا تھا۔ اِس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم مرزا بیگ اور اسد درانی کا انفرادی فعل تھا۔
[ad_2]