[ad_1]
انسان فطری طور پہ اجتماعیت پسند ہے وہ ہر سطح پر مل جل کر زندگی بسر کرنا اس کی شخصیت میں شامل ہے جس کے نتیجے میں خاندان، قبائل اور اقوام وجود میں آئی ہیں، مل جل کر اجتماعی زندگی گزارنے اور معاشرے کی ترقی کے لیے آپس میں باہمی تعاون اور ذمہ داری نبھانا بھی انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
انسان پر عائد یہ ذمہ داریاں اس کی تعلیم و تربیت، روز مرہ کی زندگی کے گھریلو امور، معاشی و سماجی لین دین اور قومی سیاسی نظام سے متعلق اس کی ذاتی، خاندانی، قومی اور بین الاقوامی دائروں میں ہیں۔ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے سب سے پہلے انسان کا اپنے مقصدِ تخلیق کو سمجھنا، اجتماعیت کے شعور کا حصول اور اس صلاحیت کو حاصل کرنا نہایت ضروری و اہمیت کا حامل ہے۔ انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی صورت میں وہ کہیں باپ ، بھائی،بیٹھا رشتے دار، شوہر ، ملازم، مالک، اور کہیں عام فرد اور کہیں حکمران کی ذمہ داریاں ادا کرتا ہوا نظر آتاہے۔ انسان پر ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کی نتیجے میں کبھی کبھار پریشانی بھی آتی ہے، لیکن یہ آنے والے مسائل کوئی سزا نہیں ہوتیں، بلکہ ان مسائل کے نتیجے میں انسان پہلے سے زیادہ جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ ان آزمائشوں کے ذریعے اللہ تعالی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اپنی ذمہ داریاں احسن انداز سے پوری کرتا ہے اور کون نہیں۔
جس طرح پوری کائنات کا نظام اللہ تعالی کے غیرمتبدل اصولوں کے مطابق اس کے فرشتوں کے ذریعے سے کار فرما ہے، اسی طرح اللہ تعالی کی ذات اس دنیا میں انسانی معاشرے کے نظام کو سماجی بھلائی کے عادلانہ اصولوں پر انسانی جماعت کے ذریعے چلانا چاہتی ہے، تاکہ سماجی ناانصافی و ظلم، افلاس و بے روزگاری، بدعنوانی و سرکشی، جبر و غلامی، انارکی، بد اخلاقی و فحاشی اور دیگر معاشرتی جرائم کو ختم کر کے وہ انسانی جماعت ایک ایسا پرامن منصفانہ سیاسی نظام، عادلانہ معاشی نظام اور اجتماعیت پر مبنی سماجی نظام قائم کرکے معاشرے کو جہنم سے جنت میں تبدیل کر سکے۔
اگر ہم انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہمیں بہت سارے پہلو نظر آتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا میں آئے، اللہ کے حکم کے مطابق انھوں نے اپنی خاندانی زندگی سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک کی ذمہ داریاں اپنے اپنے دور کے تقاضوں، تعلیمات، نظام اور موجود وسائل کے ذریعے احسن انداز سے ادا کیں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے مکمل طور پر پورے اترے۔ جس کے نتائج یہ نکلے کہ اکثر انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے معاشروں میں عادلانہ نظامِ حکومت قائم کیا اور انسانیت کو مجموعی طور پر ترقی دی۔
انسان کی مختلف ذمہ داریوں کا مقصد آج بھی وہی ہے جو نہ کبھی بدلا تھا اور نہ قیامت تک کبھی بدلے گا۔ وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ خلیفے کاکام ہوتا ہے اس معاشرے میں امن اور انصاف کا نظام قائم کرے۔ آج ہمارے معاشرے میں نا انصافی، ظلم ، بھوک و افلاس، بے روزگاری، بد عنوانی، سرکشی، جبر، غلامی اور سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک عزیز پاکستان میں موجود تمام طبقات اس غلامی کے نظام کی وجہ سے زوال وذہنی پستی کا شکار ہوکر اپنی ذاتی زندگی سے لے کر قومی و بین الاقوامی ذمہ داریوں کی ادائیگی تو دور کی بات، اس کے شعور سے بھی کوسوں دور ہیں۔ اج ہر طرف پریشانی کا محول ہے انسان انسان کو اپنا دشمن سمجھ رہا جبکہ مسلہ سرمایہدارنہ نظام میں ہے۔
آج انسانی اجتماع کو اسکی ذاتی و خاندانی زندگی سے لے کر قومی و بین الاقوامی زندگی تک کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل اگر کوئی بنا سکتا ہے اور اس کی آزمائشوں اور امتحانات میں سے کوئی کامیاب کر سکتا ہے تو وہ وہی اللہ تعالیٰ کا قرآنی نظامِ زندگی ہے۔ جس کے سیاسی، معاشی اور سماجی اصولوں پر مبنی نظامِ عدل کو معاشرے میں قائم کرنے کے لیے آج بھی اجتماعی شعوری و عملی جدوجہد ایک نظم و ضبط کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔
Roshan Din @Rohshan_Din
[ad_2]