4

عوام کے لیے بھی کچھ ہوسکتا ہے ؟

پاکستان کی سیاست اور ریاستی نظام میں عام آدمی کا مقدمہ ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ سیاست، جمہوریت اور طاقت کے مراکز میں عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور طبقات کے مفادات کو ہی اہمیت دی جاتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ قومی سیاست کی سطح پر عام آدمی کے حقوق کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا ہے ۔یوں ہمارا نظام کمزور کے حقوق کا خیال نہیں رکھتا ہے ۔ سیاست ،جمہوریت اور ادارے اسی بنیادی اصول پر کام کرتے ہیں ، جس میں عوامی مفادات کے مقابلے میں اشرافیہ اپنے مفادات کو ہی فوقیت دیتی ہے ۔اسی بنیاد پر لوگوں میں حکمرانی کے نظام پر بداعتمادی ہے۔ اشرافیائی سیاسی قیادت اپنے مفادات کی تقسیم کے معاملے پر باہمی برسرپیکار ہے۔ ریاست پاکستان کے طاقتور اور امیر طبقے عوام سے لاتعلق ہیں تو لوگ بھی سیاسی نظام سے لاتعلق ہیں۔

حکومت میں اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور انتظامی اداروں کی سطح پر جاری سیاسی لڑائی کا تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہمارے نظام میں طاقتور اور امیر افراد کو تو تحفظ مل سکتا ہے مگر عام آدمی کے مسائل کیسے حل ہوںگے اور جو مشکلات عوام کو درپیش ہے، اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ وہ کوئی علاج کرنا چاہتے ہیں۔عام آدمی کے دیگر مسائل تو چھوڑیں انصاف کے نظام میں جو مسائل موجود ہیں، اس کا بھی مداوا ممکن نہیں ۔ ایک مجموعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ خوشنما نعروں جن میں جمہوریت ، سیاست ، قانون کی حکمرانی ، آئین کی بالادستی یا عوامی مفادات کی سیاست کو بطور ہتھیار کی بنیاد پر استعمال کرنا ہے۔ہماری حکمت عملی میں عقل و دانش یا عام آدمی کے مقدمہ سے زیادہ اپنے طاقت کے گھمنڈ میں جذباتیت کا پہلو زیادہ غالب ہے۔

کیا پاکستان کا حکمران طبقہ اس ملک میں ایسی اصلاحات لانے پر تیار ہے ، جس سے ملک میں انتہاپسندی کا خاتمہ ممکن ہوسکے، آئین میں موجود ایسے قوانین کا خاتمہ کیا جائے جو امیر کو تو کچھ نہیں کہتے لیکن غریب کو چھوڑتے نہیں ہیں ۔کیا ہمارا حکمران طبقہ عام آدمی میں اس سوچ کو طاقت دے سکتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں ذاتی مفادات بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کیا ہماری بڑی ترجیح پاکستان میں موجود عام کے مسائل کا تجزیہ اور ان کی درست نشاندہی کرتے ہوئے کوئی ایسا قابل قبول حل بھی نکالنا ہے جو معاشرے میں انصاف، برابری ، وسائل کی منصفانہ تقسیم سمیت عام آدمی کی حیثیت کو مثبت طور پر تبدیل کرسکے ۔پاکستان کا سیاسی ،جمہوری اور پارلیمانی نظام عام آدمی کے مفادات سے بہت دور کھڑا ہے ۔عام آدمی جمہوری سیاست یا معیشت کی پٹری کا حصہ ہی نہیں ہے ۔یہ ایک طبقاتی حکمرانی کا نظام ہے جو طاقت ور طبقات کے دائرہ کار کے گرد گھومتا ہے اور ان ہی کے مفادات کو تحفظ دینا ان کی بڑی ترجیحات کا حصہ ہے ۔اگر ہم پوری پارلیمانی مباحث کو دیکھیں ، تمام پارلیمنٹیرینز کو دیکھیں تو سب کا تعلق اشرافیہ سے ہے ، اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں کا جائزہ لیں تو سب کا ایک طبقے سے تعلق ہے۔ایک دوسرے پر سیاسی اسکورنگ کرنا ، الزامات کی سیاست ، کردار کشی اور جھوٹ پر مبنی بیانیہ کو بنیاد بنا کرعوام کا حقیقی معنوں میں استحصال کیا جاتا ہے ۔

حال ہی میں عالمی بینک کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں برس غربت کی شرح میںگزشتہ برس کی نسبت اشاریہ تین فیصد بڑھنے کے بعد 40.05فیصد ہوگئی ہے ۔جب کہ پاکستان میں سالانہ 16لاکھ نئے نوجوانوں کے لیے روزگار ناکافی ہیں جب کہ سست رفتار معاشی ترقی ، بلند شرح مہنگائی اور اجرت میں کمی کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ہماری داخلی صورتحال یا اس کا بحران جن میں سیاسی عدم استحکام، گورننس سے جڑے مسائل ،سیکیورٹی ، دہشت گردی کا ماحول یا معاشی حالات کی وجہ سے معیشت کے آگے بڑھنے کے مثبت امکانات محدود ہیں یا ہم ان مسائل کی وجہ سے مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام ہیں ۔جب کہ دوسری بڑی وجہ اشرافیہ کا باہمی ٹکراؤ اور سیاسی اختلافات ہیں، کوئی فریق دوسرے کی بات ماننے پر تیار نہیں ہے ۔بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہمارا حکومتی نظام عام آدمی جو غریب ہے یا خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے یا جو مڈل کلاس پچھلے کئی دہائیوں میں پیدا ہوئی ان سب کو خیراتی ماڈل کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کر رہا ہے ۔



کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں