26 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد قانون کا درجہ پا چکی ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حکومت جو ترامیم لانا چاہتی تھی مولانا کے مطابق وہ آئینی ترامیم نہیں ’’کالا ناگ‘‘ تھا جو ملک اور قوم کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا کیونکہ حکومت بہت سی ایسی ترامیم لانا چاہتی تھی جس کے نتیجے میں ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا خدشہ تھا اور اس سے جمہوریت کا گلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھونٹ دیا جاتا، عدلیہ کا انتظام تباہ و برباد ہوجاتا، پارلیمنٹ ایک کٹھ پتلی بن کر رہ جاتی، مستقبل میں یہ ترامیم حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے وبال جان ثابت ہوتیں مگر جو نقصان فوری طور پر بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی قیادت کو ہونا تھا وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ عمران خان اور صف اول کی قیادت کا صفایا ہوجاتا مگر مولانا نے حکومتی ترامیم کے مسودے کو مسترد کرکے اپنا آئینی مسودہ پیش کیا اور اس مسودے کو کمال مہارت اور فراست سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے منوایا۔
دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت مولانا سے اپنی بات منوانے کے لیے کئی بار مولانا کے پاس اپنا مسودہ لے کرگئیں مگر اُن کو کامیابی نہ مل سکی اور آخر کار مولانا کے مسودے کو مان کر واپس آنا پڑا، مولانا نے حکمت اور تدبر کے ساتھ ان ترامیم میں چھپے ہوئے اس ’’کالے ناگ‘‘ کے ناصرف دانت توڑے بلکہ اس کا زہر بھی نکال دیا۔ مولانا کی لیگل ٹیم اور پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں تھی اور تحریک انصاف کے تمام قائدین مولانا کے مسودے پر متفق ہوگئے۔ یہ مولانا کا کمال ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے لیے زہر قاتل سمجھی جانے والی تمام شقوں کو نکال کر بھی انھوں نے حکومت کو راضی کیا۔ مگر بانی چیئرمین سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی قیادت نے یو ٹرن لے کر مولانا سے معذرت کر لی کہ ہم آپ سے اتفاق کرتے ہیں مگر بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر احتجاجاً ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ جسے مولانا نے بخوشی مان لیا اور اس کے بعد بھی مولانا نے پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ رابطہ رکھا اور انھیں تمام تر معاملات سے آگاہ کیا جاتارہا۔
ترامیم منظور ہونے کے بعد بھی مولانا کا رویہ بہت مثبت رہا اور پی ٹی آئی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے، لیکن 26 ویں ترمیم پاس ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے یو ٹیوبرز اور گالم گلوچ بریگیڈ نے مولانا کے خلاف ایک بار پھر منہ کھولنا شروع کیا ‘درحقیقت ان مادر پدر آزاد گالم گلوچ بریگیڈ نے پی ٹی آئی کو آج اس نہج تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، بانی پی ٹی آئی کو جتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا کر رہے ہیں۔
اس کا سہرا گالم گلوچ بریگیڈ کے سر جاتا ہے۔ انسانی عقل نہیں مانتی کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے مشترکہ ٹارگٹ مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت نے ذاتی عناد اور مفادات دونوں کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ جنگ پر آمادہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو قریب لا کر اپنے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارنے والی تمام قوتوں پر احسان کیا۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا مگر اس پر بطور پاکستانی نظر ڈالتے ہیں کہ اس سارے کھیل میں”کس نے کیا کھویا کیا پایا؟
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ حکومت کے پاس 26 ویں آئینی ترمیم کو منظور کرانے کے لیے وقت کم تھاکیونکہ 25 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہونے جا رہے تھے ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل لازم تھا کہ کم از کم 48 گھنٹے پہلے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ فریقین کے درمیان یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا کیونکہ اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حکومت کو سوٹ کرتے تھے اور پی ٹی آئی کو قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس کسی صورت قابل قبول نہیں تھے۔
اس لیے پی ٹی آئی کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی ترمیم نہ آئے جس سے چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل ہو یا سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو یا سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن ملے۔ حق تو جسٹس منصور علی شاہ کا ہی بنتا تھا لیکن پی ٹی آئی کی بے جا سپورٹ انھیں لے ڈوبی۔ اس جماعت نے جس جس کی حمایت کی یا جس جس نے اس جماعت پر احسان کیا وہ گھاٹے اور نقصان میں رہا، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید سے بڑی مثال اور کیا دی جاسکتی ہے، اگر تحریک انصاف فیض حمید اور فیض حمید تحریک کا حد سے زیادہ پشتی بان نہ بنتے تو شاید آج اگر آرمی چیف نہ ہوتے تو کم از کم ان کا کورٹ مارشل کبھی نہ ہوتا۔ مولانا نے حکومت کو بیک فٹ پر دھکیل کر اس بات پر قائل کیا کہ فرد واحد کے لیے کوئی ترمیم نہیں لائی جائے گی، جس سے قاضی فائز عیسیٰ کا جانا ٹھہر گیا۔
یہ بات حکومت کی ہار اور پی ٹی آئی کے لیے جیت کے مترادف تھی لیکن حکومت نے اسے تسلیم کیا مگر چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار بدلنے کی تجویز دی، حکومت نے پانچ سینئرترین ججوں میں سے چیف جسٹس کے لیے نام شامل کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ پہلے تین ججوں میں سے کسی کو نہ لگایا جائے لیکن پی ٹی آئی کی تجویز تھی کہ صرف پہلے تین ججوں میں سے ہی کسی ایک کا تقرر کیاجائے، یوں یہاں بھی پی ٹی آئی ہی کی تجویز مانی گئی۔ اس ترمیم کے ذریعے حکومت جو منصور علی شاہ سے خوفزدہ تھی ان کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس بنا کر بھی کچھ حاصل نہیں کر سکی، یہاں پھر تحریک انصاف نے پایا، کھویا نہیں۔ مولانا نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو قائل کیا کہ ایسی کوئی ترمیم نہیں لائی جائے گی جس سے اس ملک میں انسانی حقوق کا مسئلہ پیدا ہو، فوجی عدالتیں قائم ہوں، پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہو، عدلیہ عدم استحکام کا شکار ہو۔
فوجی عدالتوں اور آئینی عدالت کے قیام کا براہ راست نشانہ پی ٹی آئی بنتی، مولانا نے ان کا راستہ بھی روکا آئینی عدالت کے بجائے حکومت کو اس بات پر قائل کیا کہ سپریم کورٹ میں ہی ایک الگ آئینی بینچ بنایا جائے گا اور تمام تر آئینی مقدمات کی سماعت یہ آئینی بینچ ہی کرے گا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز مائنس کرنے اور آئینی بینچ بنانے کی ترمیم پر بھی پی ٹی آئی کو ہی فائدہ ہوا کیونکہ اگر فوجی عدالتیں بن جاتیں تو 9 مئی کے سانحے میں ملوث پی ٹی آئی کے بانی سمیت تمام ملزمان کے مقدمات ان عدالتوں میں منتقل ہوجاتے اور وہاں سے انھیں سزائیں ملنا شروع ہوجاتی اگر دیکھا جائے تو یہاں بھی تحریک انصاف نے پایا ہی پایا۔
حکومت مخصوص نشستوں سے متعلق ترمیم کرنا چاہتی تھی، جس کا مقصد سپریم کورٹ کے فیصلے کو بلڈوز کرکے پی ٹی آئی کی مخصوص سیٹوں سے محروم کرنا تھا لیکن مولانا نے اسے بھی مسودے سے نکلوایا حالانکہ اگر یہ ترمیم پاس ہوجاتی تو مولانا کی جماعت کو بھی اضافی سیٹیں مل جاتیں لیکن مولانا نے اس پر بھی کمپرومائز نہیں کیا، یہاں بھی فائدہ صرف پی ٹی آئی کو ہوا یعنی پایا ہی پایا کھویا کچھ نہیں۔
تحریک کے قائدین (گالم گلوچ بریگیڈ یا یوٹیوبرز نہیں) نے پہلی بار ہوش کے ناخن لے کر اپنے روایتی حریف مولانا کو اپنا حلیف بلکہ مرشد بنانے میں کامیاب ہوئے اور مولانا کی آڑ میں اپنے بانی چیئرمین کے ساتھ اپنے سروں پر آئی مصیبتوں سے جان چھڑائی اور ان کی بڑی کامیابی یہ کہ مولانا کے ساتھ ان کے فاصلے کافی حد تک کم ہوگئے۔ مگر اس دوران ان کی اخلاقی پوزیشن ابتر ہوگئی کیونکہ وہ اس سارے عمل کے دوران نہ صرف مولانا بلکہ پوری قوم کے سامنے شرمندہ ہوئے۔ تحریک انصاف نے سیاسی طور پر زیادہ کھویا اور کم پایا مگر سر دست فائدے کو دیکھیں تو انھوں نے کھونے سے بہت زیادہ پایا۔ اگر دیکھا جائے تو سردست ان ترامیم کی سب سے بڑی بینفشری تحریک انصاف ہے اور یہ احسان ان پر مولانا فضل الرحمٰن نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ احسان فراموشوں کی اس جماعت نے کبھی اپنے محسنوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا اس لیے مولانا کو ان سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ (جاری ہے)