4

دنیا  بھر میں ہر 2 ہزار میں سے ایک شخص جینیٹک ڈس آرڈر کا شکار ہے، ماہر جینیات

ماہر جینیات ڈاکٹر مصباح حنیف نے کہا ہے کہ دنیا  بھر میں ہر 2 ہزار میں سے ایک شخص جینیٹک ڈس آرڈر کا شکار ہے۔ پاکستان  میں خاندان میں شادیوں کی زیادہ شرح اور محدود جینیاتی سروسز  کی فراہمی، جینیٹک کاؤنسلنگ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس سلسلے میں تربیت یافتہ افراد کی کمی، جینیٹک ٹیسٹنگ کی محدود دستیابی کاؤنسلنگ میں رکاوٹ ہیں۔

ڈاؤ میڈیکل کالج میں پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر کے زیرِ اہتمام  ’رول آف جینیٹک کاؤنسلر ان اینٹی نیٹل‘ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد ہوا۔

اس موقع پر  پروائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نازلی حسین، ایسوسی ایٹ پروفیسر  ڈاکٹر صوفیہ بٹ، ڈاکٹرز ، ہاؤ س آفیسرز سمیت طلبہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔

 انہوں نے قبل از پیدائش (اینٹی نیٹل کلینکس) میں جینیاتی تشخیص کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس  سے درست تشخیص، متاثرہ خاندانوں میں  پری سمپٹومیٹک فرد کی شناخت، جینیاتی امراض کے خدشات کا شکار جوڑوں کو تولیدی آپشنز پیش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ا س حوالے سےمختلف جینیٹک ٹیسٹس جیسا کہ ڈائیگنوسٹک، پری ڈکٹیو اور کیریئر ٹیسٹس کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ جینیٹک کاؤنسلنگ مختلف شعبہ جات ، پری نیٹل، پیڈیاٹرک، بالغان اور کینسر جینیٹک کاؤنسلنگ میں ہوتا ہے۔پری نیٹل  جینیٹک کاؤنسلنگ قبل از اور بعد از حمل کچھ علامات کی بنیاد پر کی جاتی ہے،جیسا کہ متعدد مِس کیرجز، موروثی بیماریاں، سابقہ ابنارمل پریگننسی، والدین کی زیادہ عمر کی صورت میں پریکنسیپشن کاؤنسلنگ کی جانی چاہیے، جبکہ ابنارمل پری نیٹل اسکریننگ نتائج کی صورت میں پوسٹ کنسیپشن کاؤنسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے یہ بتایا کہ ماں کی عمر بھی بچے میں جینیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے، 20 سے 29 برس کی ماؤں میں 1500 میں سے ایک بچے کو،30 برس سے زائد العمر ماؤں میں 800 میں سے ایک، 35 سے زائد العمر میں 270 میں سے ایک، 40 برس سے زائد میں 100 میں سے ایک اور 45 برس سے زائد العمر میں 50 میں سے ایک کے بچے کو جینیاتی  بیماری لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر مصباح نان انویزو پری نیٹل ٹیسٹنگ(این آئی پی ٹی) جینیٹک ٹیسٹنگ ٹولز اور دیگر اسکریننگ ٹیسٹس سے متعلق بھی بتایا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ مریض کو جینیاتی کاؤنسلنگ کرنے کے بعد فیصلے کا اختیار ان پر چھوڑیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہر 2000 میں سے ایک فرد میں جینیاتی بیماری پائی جاتی ہے جس سے متاثرہ خاندانوں پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں خاندان میں شادیوں کی زیادہ شرح اور محدود جینیاتی سروسز کی فراہمی، جینیٹک کاؤنسلنگ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس سلسلے میں تربیت یافتہ افراد کی کمی، جینیٹک ٹیسٹنگ کی محدود دستیابی کاؤنسلنگ میں رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں ڈا ؤ یونیورسٹی نے جینیٹک کلینک قائم کیا جارہا ہے جہاں مریضوں کو یہ خدمات مفت فراہم کی جائیں گی۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں