9

فیصلے اور خاموشی کی جیت

تاریخ سے بے خبروں کو علم ہوکہ تاریخ کے اوراق تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مغل دورِ اکبر میں دمشق سے بلوائے گئے نور اللہ شوستری کو سلطنت کا ’’ قاضی القضا‘‘ محض نور اللہ کی قابلیت اور دنیا بھر کے علوم انصاف پر دسترس کی بنیاد پر چنا گیا، گو اس سے قبل اکبر بادشاہ نے قاضی نور اللہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے اور درباری منشا پر فیصلہ نہ کرنے اور عدل و انصاف پر فیصلے کی بنیادی شرط کو قبول کیا اور اکبر بادشاہ آخری سانس تک اپنے عہد پر قائم رہا۔

محض یہی وہ وجہ تھی کہ پھر برصغیر کے عام فرد نے دیکھا کہ قاضی نور اللہ شوستری نے ہر فرد کو وہ انصاف فراہم کیا جس کو تاریخ نے دورِ اکبری کے انصاف سے یاد کیا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ مغل بادشاہ اکبر کے خانوادے کو جب تخت پر بٹھایا گیا تو عیش و عشرت اور ناز و نعم میں پلنے والے بادشاہ جہانگیر کو حشیش کی لت ایسی عادت  روز حجرے میں شباب سے لطف اندوز ہونے میں اور ریاستی امور سے بیگانہ ہونے کی پڑی کہ بعد کو جہانگیر بادشاہ کے چاپلوسوں کی گرفت اقتدار پر بڑھتی چلی گئی

اور جہانگیر کے چاپلوسوں کے انتشار اور فتنہ پردازی کو روکنے کی کوشش جب قاضی نور اللہ شوستری نے اپنے فیصلوں کے ذریعے کی تو جہانگیر بادشاہ کے انتہائی خاص درباری چاپلوس جج نے جہانگیر کے کان قاضی نور اللہ شوستری کے خلاف بھرنے شروع کیے اور جہانگیر بادشاہ سے قاضی صاحب کی سزائے موت کا پروانہ لکھوا لیا اور یوں نحیف قاضی القضا کو کوڑے مار کر1019ھ میں ’’شہید‘‘ کیا گیا اور بعد کو قاضی نور اللہ کی زبان گدی سے کھینچ کر پورے بر صغیر کی رعایا کو پیغام دیا گیا کہ اگر انہوں نے ’’ سچ یا حق‘‘ بولنے کی کوشش کی تو رعایا کا بھی حال ’’ قاضی نور اللہ شوستری‘‘ کی طرح کیا جائے گا۔

قاضی القضا نور اللہ شوستری کے عدل و انصاف کے اس تاریخی تناظر میں جب میں اپنے سماج کی بے ابتری اور دولت و شہرت کے حصول کو دیکھتا ہوں تو مجھے ’’علم حاصل کرنے‘‘ اور ’’ علم پانے والوں‘‘ کا فرق واضح ہوجاتا ہے اور اس لمحے ہمارے دیس کے  ججوں کے عدل و انصاف اور قول و فعل کے تضادات مزید افسردہ کردیتے ہیں اور لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی ابتری پھیلانے اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے والوں کے ساتھ جب  ججوں کے کردار بھی سوالیہ نشان بن جائیں تو وہ سماج کیسے عدل و انصاف کے اس معیار پر آئے گا جو کہ ’’حق اور سچ‘‘ کے ’’علم پانے والوں‘‘ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر انصاف دینے کو جاری رکھا۔

لکھنے والے لکھتے ہیں کہ پچھلے سال جب قاضی صاحب نے بطور چیف جسٹس پہلے دن فل کورٹ کا اجلاس بلایا تو اس کا ایک ایجنڈا آئٹم یہی تھا،  کہ عدالت میں سالہا سال سے ہزاروں کی تعداد میں معلق مقدمات کی تعداد کیسے کم کی جائے؟  اجلاس کو بتایا گیا کہ کئی سال قبل  دو رکنی کمیٹی کو اس مقصد کے لیے تجاویز دینے کا کام سونپا گیا ہے لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس کمیٹی کی رپورٹ نہیں آئی۔

مزید معلوم ہوا کہ رپورٹ کا ابتدائی خاکہ تو تیار ہوچکا ہے لیکن حتمی رپورٹ ابھی بننی ہے۔ بہرحال اسی کمیٹی کو پھر یہی کام سونپ کر جلد پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ کچھ عرصے بعد رپورٹ تو آئی لیکن وہ صرف رپورٹ تھی کیونکہ  کئی امور پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔بہرحال بات ہورہی تھی، معلق مقدمات کا انبار ختم کرنے کے لیے  رپورٹ کی۔ تو رپورٹ میں  بڑے بڑے اہداف مقرر کیے گئے تھے اور ان تک پہنچنے کے راستے بھی بتائے گئے تھے۔ میں پڑھ کر اش اش کر اٹھا تھا۔ (اس ترکیب کو ’عش عش‘ کرنے کا مشورہ نہ دیں، ’اش اش‘ ہی درست ہے)۔

لیکن عملاً جو کچھ ہوا، اس کے بعد  میرے ذہن میں مسلسل یہی مصرع چل رہا ہے۔

میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں؟

اس بے اعتباری کی وجہ کیا ہے؟ ماضیِ قریب کی ایک مثال دیکھ لیجیے۔قاضی صاحب صبح تقریباً 9 بج کر 25 منٹ پر سپریم کورٹ پہنچتے تھے تو میں ان کے ساتھ کمرہ عدالت تک جاتا تاکہ اگر انھیں کچھ ہدایات دینی ہوں تو وہ دے دیں اور اگر میں نے ان کے علم میں کوئی بات لانی ہے تو میں وہ پیش کروں۔ عدالت کی کارروائی 9 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوتی تھی۔

اس دن قاضی صاحب تقریباً9 بج کر 28 منٹ پر پہنچے۔ تیزی سے کمرہ عدالت کی طرف جا رہے تھے اور  مجھے کچھ بتا بھی رہے تھے لیکن بات تھوڑی لمبی ہوگئی، تو رک کر مجھے لکھنے کے لیے کہا۔ میں نے وہ باتیں نوٹ کر لیں اور پھر ہم آگے بڑھے، تقریباً 9 بج کر 35 منٹ پر کمرہ عدالت کے قریب پہنچے، تو اچانک ایک جھٹکا سا لگا کہ سامنے سے تین جج آرہے ہیں۔ قاضی صاحب نے آگے بڑھ کر کہا ’’ خیریت، آپ تو واپس جارہے ہیں؟‘‘ ان کے سینیئر نے کہا کہ ’’ہاں! ہمارے کیسز ختم ہوگئے ہیں‘‘ ’’ختم ہوگئے ہیں؟‘‘

قاضی صاحب نے حیرت سے پوچھا، ’’ ابھی تو 9 بج کر 35 منٹ ہوئے ہیں، 5 منٹ میں کیسے ختم ہوگئے؟‘‘ جواب ملا ’’ ہاں، بس کچھ التوا کی درخواستیں تھیں، نمٹا دی ہیں۔‘‘ قاضی صاحب نے بے ساختہ کہا ’’ اوہ ہاں، آج تو جمعہ ہے، جمعہ کو کچھ جلدی ہوتی ہے ۔ قاضی صاحب ہنستے ہوئے اپنے کمرہ عدالت کی طرف بڑھ گئے۔تو اعتبارِ انقلابِ آسماں کرنے سے قبل اگلے جمعہ کو ضرور دیکھ لیجیے کہ عدالت کا کام 12 بجے ختم ہوتا ہے یا اس سے قبل ہی عدالت ویران ہوجاتی ہے۔گر یہ نہیں، تو بابا، پھر سب کہانیاں ہیں۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں