7

درس گاہیں اور گورننس کا بحران

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے جڑے اہم معاملات میں درسگاہوں کی خود مختاری ، وسائل کا درست استعمال،تعلیمی مہارتیں اور جدید تحقیق، طلبہ و طالبات کے لیے خوشگوار تعلیمی ماحول کی فراہمی جیسے امور اہمیت رکھتے ہیں ۔

پاکستان کو ان حوالوں سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔اول، داخلہ نظام میں خرابیاں ہونا، میرٹ کو نظرانداز کرنا، داخلوں میں سیاسی مداخلت کا ہونا، درسگاہوں میں اہم عہدوں پر تقرری جیسے مسائل نے معاملات کو مشکل بنایا ہے۔ دوئم، من پسند تقریوں کے ذریعے حکومتی کنٹرول قائم رکھنا، بیڈ گورننس ہونے کی وجہ سے نئے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں، جب درسگاہوں کے سربراہان کی تقرری سیاسی ہوگی تو لازم ہے، حکومت کا اثر بڑھے گا۔

یہ جو ہمیں تعلیمی سطح پر گورننس کے بحران کا سامنا ہے ،کوئی اچانک نہیں پیدا ہوئے۔ان تمام بحرانوں کو کسی ایک حکومت نے پیدا نہیں کیا بلکہ سابقہ حکومتیں بھی معاملات کو اسی طرح چلاتی رہی ہیں ۔ 18ویں ترمیم کے بعد خیال تھا کہ صوبے تعلیم کا معیار بہتر بنائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔شفافیت اور ساکھ پہلے سے زیادہ خراب ہوئی ہے ۔

سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کے بعد یہ صوبائی سطح پر صوبائی حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ تعلیمی اصلاحات کو فروغ دیں تاکہ ہمارا تعلیمی و تحقیقی معیار بہتر ہوسکے ۔لیکن نتائج زیادہ اچھے نہیں نکل سکے ہیں۔ تقرریوں میں مستقل پالیسی کے بجائے ایڈ ہاک پالیسی کا غلبہ نظر آتا ہے ۔ درسگاہوں کو کئی کئی برس تک ایڈہاک پالیسی کے تحت چلانا فائدہ مند نہیں ہوا بلکہ مسائل بڑھنے کا سبب بناہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری جامعات کو گورننس کے بحران کا سامنا ہے اور اس میں مالی وسائل کی کمی اور حکومتی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں مضبوط کمٹمنٹ کا نہ ہونا بھی شامل ہے ۔

بنیادی طور پر جامعات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے یہ نہ صرف ڈگریاں دیتی ہیں بلکہ اپنے تعلیمی معیار کو اعلیٰ حیثیت دے کر حکومتی سطح پر درپیش چیلنجز کا ایک متبادل تحقیقی بیانیہ بھی پیش کرتی ہے ۔دنیا میں حکومتی نظام اپنی درستگی کے لیے یا ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا عمل براہ راست جامعات کی مشاورت، تحقیق اور متبادل بیانیہ سے جڑا ہوتا ہے ۔مگر یہاں لاتعلقی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔ اگر کوئی اچھا کام کرتا ہے یا کرنا چاہتا تو اس کے اپنے ساتھی ہی اس  کے خلاف محاذ بنا لیتے ہیں اور حکومت اس عمل میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں۔

ایک اچھا وائس چانسلر اپنی جامعات کی ٹیم کی مدد سے اس درس گاہ کو علم وتحقیق اور قیادت کی فراہمی کے ماحول میں اعلیٰ معیارات پیدا کرتا ہے ، نئے ٹیلنٹ کو سامنے لاتا ہے ،نئی اور جدید تحقیق کو سامنے لانا ، جامعات کو علم اور رواداری کا گہوارہ بنانا،متبادل آواز اور خیالات کو اہمیت دینا اور ان کی رائے کی قبولیت کو یقینی بنانا ، جامعات میں سیاسی ،سماجی ، اعلیٰ اقدار ،معاشی کلچر کو فروغ دینا یا غیر نصابی سرگرمیوں کی بنیاد پر اسٹوڈنٹس کونسلوں کو فروغ دینا ،معاشی گروتھ یا اس سے جڑی ترقی کو یقینی بنا کر جامعات کو مالی طور پر خودمختار بنانا، تنقیدی سوچ کو اہمیت دینااور کمیونٹی سروسز کو فروغ دینا جیسے امور اہمیت رکھتے ہیں ۔

ہمارے تعلیمی اداروں کو سنگین مالی بحران کا سامنا ہے، یہاں تک کہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی بھی مسئلہ بن رہا ہے۔ ہمیں انتظامیہ ، ٹیچرز اور طلبہ کے درمیان کمیونیکشن گیپ گہرا ہوتا نظر آتا ہے۔ جامعات کی سطح پرعدم برداشت کا کلچر، میرٹ کے بغیر محض کوٹہ سسٹم کے تحت داخلہ لینے والے علاقائی طلبہ وطالبات کا میرٹ پر داخل طلبہ کے ساتھ تنازعات ، مختلف قسم کے تنگ نظر نظریاتی، علاقائی اور فرقہ پرست تنظیموں کا طلبہ میں نفرت و عصبیت کو ہوا دینا اہم معاملات ہیں ۔

اساتذہ کی تقرری میں وائس چانسلر یا تو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا اس سے غلط فیصلے سیاسی دباؤ ڈال کر کرائے جاتے ہیں ۔اساتذہ کے تربیتی پروگرام ، نصاب میں تبدیلی جیسے امور سمیت اساتذہ کا باقاعدگی سے نہ پڑھانے اور ناقص امتحانی نظام پر کوئی سنجیدگی سے کام نظر نہیں آتا ۔

جامعات کی سطح پر اگر گورننس سے جڑے معاملات میں شفافیت یا اہلیت کو پیدا کرنا ہے تو اس میں ہر سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی میں سب کی شمولیت اور نمایندگی کو یقینی بنانا ،شفافیت ،نگرانی اور جوابدہی یا خود احتسابی کا نظام ،گورننس کے نظام کو موثر اور فوری ردعمل ،برابری و مساوات کا عمل،قانون کی حکمرانی اور سب کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے یکساں سلوک، سب کے لیے ترقی کے تناظر میں برابری کے مواقع،سیاسی سطح پر موجود مداخلتوں کا خاتمہ ،کرپشن اور بدعنوانی سمیت اقرباپروری کا خاتمہ ،بیوروکریسی کا بڑھتا ہوا دباؤ، تعلیمی معیارات کو بڑھانا ،وائس چانسلر کی اپنی شاندار جمہوری قیادت کا ہونا ، جامعات کے اپنے تھنک ٹینک کا قیام ،وائس چانسلرزکی تقرری پر ان سے جامع پلان سے آگاہی لینا اور پچھلی جامعات میں ان کی کارکردگی کو جانچنا ، جامعات کی عالمی جدیدیت کے نظام کی بنیاد پر اپنے اہم معاملات میں درستگی کو پیدا کرنے پرتوجہ دینی ہوگی ۔

اسی طرح جامعات کی سطح پر یا وفاقی یا صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سطح پر حکومت کو اور خود جامعات کو اپنے اپنے تھنک ٹینک قائم کرنے پڑیں گے تاکہ جامعات کے معیار اور تعلیمی صلاحیتوں کو بڑھایا جاسکے گا ۔ اس میں خا ص طور پر ریٹائرڈ ہونے والے سابق وائس چانسلرز یا ڈین یا ماہرین تعلیم ، صنعت کاروں ، دانشوروں اور تعلیم سے جڑے دیگر اہم افراد کو شامل کرنا چاہیے ۔

اسی طرح جامعات اور سول سوسائٹی کے اپنے درمیا ن بھی مضبوط رابطہ کاری درکار ہے تاکہ جامعات اور ان کی قیادت اپنی اپنی سطح پر بھی اور باہمی مشاورت یا اتفاق کی بنیاد پر علمی و فکری سطح پر سیکھنے اور سکھانے والا ایک نیا کلچر پیدا کریں تاکہ ہم اپنے نظام کی ساکھ کو قائم کرسکیں ۔



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں